نور ولی محسود کا سی این این کو انٹرویو ،سینئر صحافی حامد میر کے حیرت انگیز انکشافات

اسلام آباد (پی این آئی )سینئر تجزیہ کار و صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے رہنما نور ولی محسود کا سی این این پر انٹرویو ان خفیہ اداروں کی ناکامی ہے جنہوں نے گذشتہ ماہ میڈیا کو یہ بتایا تھا کہ محسود کی موت واقع ہو گئی ہے ۔ پاکستان کیخلاف اعلان جنگ پر مبنی یہ انٹرویو افغان طالبان کی مرضی کے بغیر نہیں دیا گیا۔ سینئر اینکر پرسن کے مطابق طالبان حیرت انگیز سفارتی چالیں چل رہے ہیں۔ ایک طرف ان کے جنگجو پورے افغانستان میں آگے بڑھ رہے ہیں، دوسری طرف وہ خطے کے ممالک کے اضطراب کو دور کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے ایرانیوں ، روسیوں اور وسط ایشیاء کے ممالک کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ انہوں نے چینیوں کو یقین دلایا کہ ان کا مسلم اقلیتوں کے خلاف بیجنگ کے مظالم کو چیلنج کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اور انہوں نے امریکیوں سمیت ہر کسی کو یہ بھی بتایا ہے کہ طالبان کی حکومت افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف کارروائیوں کے اڈے کے طور پر استعمال نہیں ہونے دے گی۔اس زبردست اور موثر حکمت عملی کو 26 جولائی کو اس وقت ایک بڑا جھٹکا لگا جب پاکستانی طالبان کے سربراہ نور ولی محسود نے سی این این کو ایک غیر معمولی انٹرویو دیا جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ ان کا گروپ افغانستان کی سرحد پر پاکستانی علاقوں پر قبضہ کرنے اور انہیں “آزاد کرانے” کا ارادہ رکھتا ہے۔ طالبان قیادت نے انہیں اس طرح کا اشتعال انگیز بیان دینے کی اجازت کیوں دی؟یہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنما مفتی نور ولی محسود کا پہلا ٹیلی ویژن انٹرویو تھا۔ نور ولی محسود ایک انتہائی تجربہ کار مذہبی عسکریت پسند ہے۔ امریکہ نے محسود کی “خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد” کے طور پر درجہ بندی کر رکھی ہے اور اس اقدام کو اقوام متحدہ بھی منظور کر چکی ہے۔جب پاکستانی میڈیا نے افغان طالبان کے قطر میں مقیم ترجمان سہیل شاہین سے رابطہ کیا تو اس نے سرکاری سطح پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا گروپ کسی کو بھی دوسرے ملکوں کے خلاف حملوں کے لئے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ تاہم اس نے ذیلی سوالات کے واضح جواب دینے سے گریز کیا۔یہ ایک کھلا راز ہے کہ نور ولی محسود مشرقی افغانستان میں روپوش ہے۔ اگرچہ تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیاں پاکستان پر مرکوز ہیں لیکن اسے بنیادی طور پر افغان طالبان ہی کا حصہ سمجھنا چاہیے۔نور ولی محسود نے اردو زبان میں شائع ہونے والی اپنی یاد داشتوں میں اس نکتے کو بڑی تفصیل سے بیان کر رکھا ہے۔ اس کتاب میں القاعدہ کے ساتھ اپنے گروپ کے تعلق کی بھی وضاحت کی ہے جسے اس نے قریبی اتحادی کے طور پر بیان کیا ہے۔ اگرچہ اپنے ٹی وی انٹرویو میں اس نے القاعدہ کے ساتھ کسی قسم کے روابط کا اقرار کرنے میں احتیاط سے کام لیا لیکن انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ، “ہم نے پاکستان کے خلاف جہاد کیا ہے اور ہم اسلامی امارت افغانستان کے جھنڈے تلے پوری دنیا میں خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسلامی امارت افغانستان کا مطلب افغان طالبان ہی ہے ۔محسود اپنے افغان اتحادیوں کے اختیار سے سرمو انحراف کی سکت نہیں رکھتا۔ میرے خیال میں افغان طالبان نے دو وجوہات کی بنا پر اسے اس ٹی وی انٹرویو کی اجازت دی۔ اول تو وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ محسود اب بھی زندہ ہے۔ انہوں نے گذشتہ ماہ ہونے والے ڈرون حملے میں اس کی موت کی خبروں کی تردید کی تھی۔ اس نے انٹرویو میں سامنے آ کر بہت سی خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کو بے نقاب کیا جنہوں نے میڈیا کو اس کی موت کی خبر دی تھی۔ دوسرا یہ کہ افغان طالبان اسلام آباد کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ طالبان کے کابل کی طرف بڑھنے پر پاکستان کو کسی عوامی تشویش کے اظہار سے گریز کرنا چاہئے۔ بصورت دیگر محسود کو سامنے لا کر دھمکی دی گئی ہے کہ افغان طالبان ایک بار پھر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان کے خلاف میدان میں اتار سکتے ہیں۔بہرصورت، سی این این انٹرویو نے ان وعدوں کی ساکھ کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے جو فی الحال افغان طالبان عالمی برادری سے کر رہے ہیں۔ کیا امریکہ اور دیگر طاقتیں واقعتاً طالبان پر اعتماد کر سکتی ہیں جب کہ وہ اپنے ایک اتحادی گروہ کو پاکستان کے خلاف دھمکیاں جاری کرنے کی اجازت دے رہے ہیں؟یہ بات قابل غور ہے کہ القاعدہ کے دو کارکنوں نے چند ہفتے قبل سی این این کو ایک انٹرویو دیا تھا جس میں انہوں نے امریکا کے خلاف “تمام محاذوں پر جنگ” کی تعریف کی تھی اور افغان طالبان کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ افغانستان کے کم از کم 15 صوبوں میں القاعدہ موجود ہے۔ اقوام متحدہ کے تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ افغانستان میں موجود القاعدہ جنگجوؤں میں سے بیشتر افراد کا تعلق القاعدہ کی اس شاخ سے ہے جسے القاعدہ برصغیر پاک و ہند (AQIS) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس گروہ میں بنیادی طور پر افغان اور پاکستانی شہری شامل ہیں تاہم ان میں ہندوستان ، بنگلہ دیش اور میانمار کے شہری بھی موجود ہیں۔ اس رپورٹ میں ازبکستان اور چین کے گروپوں کا بھی ذکر ہے۔ اسی رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ مشرقی افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لگ بھگ 6000 جنگجو سرگرم ہیں۔یہ رپورٹ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے جو افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر مل کر کام کر رہے ہیں۔ طالبان جنگجوؤں نے پچھلے کچھ ہفتوں میں سرحدی گزرگاہوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ رواں مہینے کے شروع میں سیکڑوں افغان فوجی تاجکستان فرار ہو گئے۔ اس ہفتے 46 افغان فوجیوں کو پاکستان نے ایک ایسے سرحدی علاقے میں پناہ دی تھی جہاں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجو سرگرم ہیں۔طالبان خطے کے ان ممالک کے خوف سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں جو شدید خواہش رکھتے ہیں کہ افغان طالبان کی مدد سے افغانستان میں داعش کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ ان ممالک کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔ انہیں افغان طالبان پر مشترکہ دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ گذشتہ سال امریکیوں کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے کی پاسداری کریں۔ طالبان کو اپنے اس وعدے پر قائم رہنا چاہیے کہ افغانستان کو دوسرے ممالک کے خلاف غیر ملکی عسکریت پسندوں کا اڈا نہیں بننے دیا جائے گا۔افغان طالبان خطے میں بڑے اسٹیک ہولڈرز کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ صرف ایک مثال ہی کافی ہے۔ کابل اور اسلام آباد میں شاید ہی کسی بات پر اتفاق ممکن ہو۔ دونوں حکومتیں اکثر ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتی ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ طالبان دونوں ممالک کے باہمی اختلافات سے فائدہ حاصل کریں گے۔ فریقین میں اعتماد کا بحران اور شک و شبے کی فضا افغانستان میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ افغان طالبان کو بھی اپنے دوہرے کھیل سے متعلق ان خدشات کو دور کرنے کے لئے قابل اعتماد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو سی این این پر ان کے درپردہ اتحادی کے حالیہ انٹرویو کے بعد سامنے آئے ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں