اسلام آباد(پی این آئی )امریکا نے افغانستان کے بعد عراق سے بھی اپنی فوجیں نکالنے کا اعلان کردیا ہے۔ پیر کے روز امریکی صدر جوبائیڈن نے عراقی وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی سے وائٹ ہاؤس میں اہم ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ عراق میں امریکی جنگی مشن روان سال کے آخر تک ختم ہوجائے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اعلان امریکہ کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ “انہیں لگتا ہے کہ عراق میں حالات اب ٹھیک ہو رہے ہیں، اس لیے سال کےآخر تک جنگی مشن سے نکل جائیں گے، لیکن داعش سے نمٹنے کے لئے عراقی فوج کی تربیت اور مدد جاری رکھیں گے۔واضح رہے کہ عراق کے وزیر اعظم مصطفی الخادمی نے کہا ہے کہ داعش کے خلاف جنگ اب خود لڑ سکتے ہیں اس لیے امریکی فوج کی ضرورت نہیں رہی۔ایک انٹرویومیں عراقی وزیر اعظم مصطفی الخادمی نے ملک کی اہم پالیسیوں اور امریکا سےتعلقات کے حوالے سے اہم گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ داعش کے خلاف لڑائی میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور شدت پسند سکڑ کر ایک مختصر علاقے تک محدود ہوگئے ہیں اس لیے عراق میں اب امریکی فوجی دستوں کی ضرورت نہیں۔عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے ٹائم فریم سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیراعظم مصطفی الخادمی نے بتایا کہ آئندہ ہفتے امریکی صدر سے ملاقات میں امریکی دستوں کی کسی اور ملک منتقلی یا وطن واپسی کے طریقے کار اور ٹائم فریم کا فیصلہ کیا جائے گا۔عراقی وزیراعظم نے کہا کہ ہماری فوج اپنے ملک کا خود دفاع کرنے کی صلاحیت کرتی ہے اور اب اپنی سرزمین پر کسی بھی غیرملکی فوجی دستوں کا وجود نہیں چاہتے۔ غیر ملکی فوجیوں نے داعش کے خلاف جنگ میں ہمارا ساتھ دیا جس پر شکر گزار ہیں۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان اور عراق سمیت کئی ممالک سے اپنے فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ جس کے تحت عراق سے 3 ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلالیا گیا تھا تاہم اب بھی 2 ہزار 500 امریکی فوجی عراق میں موجود ہیں۔واضح رہے کہ 2014 کو داعش سے مقابلہ کرنے کے لیے اْس وقت کے امریکی صدر بارک اوباما نے عراق میں امریکی فوجیوں کو بھیجا تھا تاہم سابق صدر ٹرمپ نے افغانستان، عراق، شام اور صومالیہ سے امریکی فوجیوں کو بلانے کا عندیہ دیا تھا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں