اسلام آباد (پی این آئی)وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں آج اس پر اس لیے بات کرنا چاہتاہوں ، ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم وار آن ٹیرر میں فرنٹ لائن سٹیٹ بن جائیں گے ، میری ایک سیٹ تھی ، میں بار بار کہتا تھا کہ جنگ سے ہمارا کیا تعلق ہے ، القائدہ افغانستان میں ہے ،ہم نے کیا کیا ہے کہ ہم ان کی جنگ میں شرکت کریں ، میری قوم سیکھے ،سیکھنے سے انسان آگے بڑھتا ہے ،اس وقت فیصلہ یہ ہوا کہ امریکہ بہت ناراض ہے ، زخمی ریچھ کا لفظ استعمال کیا گیا ، وہ کچھ بھی کر سکتاہے ، ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے ، کوئی قوم کسی اور کی جنگ میں اپنے 70 ہزارلوگوں کی قربانی دیتی ہے ، یہاں پر کوئی کرکٹ ٹیم نہیں آتی تھی ۔ان کے ایک جنرل کی کتا ب میں پڑھا کہ مشرف کو جو کہتے تھے وہ کرنے کیلئے تیار ہو جاتا تھا ، حکومت اپنے لوگوں کی حفاظت نہیں کرتی تو پھر کس نے کرنی ہے ، القائدہ تورابورا کے بعد قبائلی علاقے میں آ گئے ، ہمیں انہوں نے حکم دیا کہ اپنی فوج قبائلی علاقوں میں بھیجو، جب فوج قبائلی علاقے میں گئی ، ادھر سے و ہ ڈرون اٹیک کریں ، وہاں شہری مر جائیں ، چند سو لوگوں کیلئے قبائلی علاقوں میں فوج بھیج دی ، ہمارے قبائلی علاقے کے لوگوں نے نقل مکانی کی ، جب میں کہتا تھا کہ یہ غلط ہو رہاہے تو مجھے طالبان خان بنا دیا ، وہ جو دور تھا ہماری تاریخ کا سب سے سیاہ وقت تھا ۔ہم امن میں شراکت دار رہیں گے ، لڑائی میں شراکت دار نہیں بن سکے، کبھی ملکی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ دشمن کون اور دوست کون ہے ، کبھی یہ سنا ہے کہ آپ کا دوست آپ کے ملک میں بمباری کر رہاہو، آپ کے ملک میں ڈرون اٹیک کر رہا ہو، جن لوگوں کے بیوی بچے مرتے تھے ، وہ بدلہ پاکستانی فوج سے بدلہ لیتے تھے ، دونوں طرف پاکستانی مر رہے تھے ، 30 سالوں سے لندن میں ہمارا ایک دہشتگرد بیٹھا ہے کیا ہم اس پر ڈرون حملہ کرنا چاہیں تو کیا وہ ہمیں اجاز ت دیں گے ؟ اگر وہ اجازت نہیں دیں گے تو ہم نے کیوں اجازت دی، کیا ہم آدھے انسان ہیں ، کیا ہماری جان کی کوئی قیمت نہیں ہے ، ہمارے ملک میں اجازت دی گئی ، لوگوں سے جھوٹ بولا کہ ہم ڈرون حملے کی مذمت کرتے ہیں، ۔ہمیں دنیا نے ذلیل نہیں کیا بلکہ ہم نے خود کو ذلیل کیا ہے ۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو قوم اپنی عزت نہیں کرتی دنیا اس کی عزت نہیں کرتی ، اٖفغانی ہمارے بھائی ہیں، انہوں نے کبھی بیرونی مداخلت قبول نہیں کی ۔جب امریکہ نے دیکھ لیا کہ کوئی ملٹری حل نہیں ہے، جب اب وہ جارہے ہیں تو پاکستان کو کہہ رہے ہیں تو انہیں مذاکرات کے ٹیبل پر لے آئیں۔اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات کیلئے دعوت دیتا ہوں، یہ کوئی حکومت اور اپوزیشن کی بات نہیں یہ پاکستان کی جمہوریت کا مستقبل ہے ،میں یہی درخواست کرتاہوں کہ وقت آ گیاہے کہ ہم بھی الیکشن لڑیں اور کسی کو فکر نہ ہوکہ مجھے دھاندلی سے ہرا دیا جائے گا ، چین ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات نے ہمیں ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ، میں ان ممالک کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔صوبہ پنجاب کسان کارڈ لا رہاہے ، جس سے ڈیٹابیس بنے گا ، کسانوں کو رجسٹرڈ کر رہے ہیں ،13 ایکٹر سے کم زمین والے کسان کو براہ راست سبسڈی فراہم کی جائے گی ۔ کھاد سمیت دیگر چیزوں پر ان کی براہ راست مدد ہو گی ۔احساس پروگرام کے ذریعے ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو براہ راست سبسڈی دی جائے گی ۔گھی ،آٹا، دالیں ، چینی سمیت کھانے کی ضروری اشیاء کسی بھی کریانہ سٹور سے سبسڈائز نرخوں پر لے سکیں گے ۔90 ہزار انڈر گریجویٹ سکالر شپ اپنے غریب طبقے کو دے رہے ہیں ۔ وزیر اعظم کے قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران اپوزیشن کا کوئی اہم رہنما ایوان میں موجود نہیں تھا، ان کی تقریر شروع ہونے سے پہلے ہی اہم اپوزیشن رہنما ایوان سے جاچکے تھے ۔وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی پارلیمانی پارٹی اور اتحادیوں کا شکریہ ادا کرتاہوں ، میں تقریر سے پہلے اپوزیشن کو دعوت دیتا ہوں آئیں الیکشن اصلاحات کریں ، ہم نے بڑی کوشش کی ہے کہ الیکشن اصلاحات ہوں ، جو بھی الیکشن ہارے وہ اپنی شکست تسلیم کرے ، ہم نے اصلاحات پیش کیں ، جس پر اپوزیشن کی بحث نہیں ہوئی ، یہ کوئی حکومت اور اپوزیشن کی بات نہیں یہ پاکستان کی جمہوریت کا مستقبل ہے ، اپنے تجربے سے بتا رہاہوں ، جب ہم کرکٹ کھیلتے تھے تو ملک اپنے ایمپائر کھڑے کرتے تھے ، جو بھی ہارتا تھا وہ کہتا تھا کہ ہمیں ایمپائرز نے ہرا دیا ، میں نے بطور کپتان پوری مہم چلائی ، پاکستان وہ ملک تھا جس نے تاریخ میں نیوٹرل ایمپائر کھڑے کیئے ۔وزیراعظم کا کہناتھا کہ آج دنیا کی کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر اور ٹیکنالوجی بھی ہے اور جو ہارتا ہے وہ تسلیم کرتا ہے ، میں یہی درخواست کرتاہوں کہ وقت آ گیاہے کہ ہم بھی الیکشن لڑیں اور کسی کو فکر نہ ہوکہ مجھے دھاندلی سے ہرا دیا جائے گا ،پہلے ہی دن میں نے تقریر کرنے کی کوشش کی اپوزیشن نے نہیں کرنے دی ، انہوں نے کہا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے ، جب الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے تو بتانا تھا کہ کس طرح ٹھیک نہیں ہوئے ، جب ہم نے کہا کہ الیکشن ٹھیک نہیںہوئے تو ہم نے آڈٹ کرنے کا کہا ، چار حلقو ں کو نہیں کھولا گیا ، عدالت میں کیس لڑ کے حلقے کھلے اور دھاندلی نکلی ۔انہوں نے کہا کہ 2015 میں جوڈیشل کمیشن نے کہا تھا کہ بے ضابطگیاں پولنگ ختم ہونے کے بعد ہوتی تھیں ، ہم مشاورت سے نتیجے پر آئے کہ الیکٹرانک مشینیں لگائی جائیں ، اس کے بعد جو بھی سوال کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے ، اگر ان کے پاس کوئی اور تجویز ہے تو ہم سننے کیلئے تیار ہیں ، ملک میں 1970 کے بعد تمام الیکشن متنازع ہوئے ۔ عمران خان کا کہناتھا کہ بجٹ سے پہلے اپنے ویژن پر بات کرنا چاہتاہوں ، بجٹ کو ملک کے ویژن کو ریفلکٹ کرنا چاہیے ، وزارت خزانہ اور ٹیم کو مبارک پیش کرتاہوں کہ میرے ویژن کے مطابق بجٹ بنایا ہے ، 25 سال پہلے پارٹی کو شروع کیا تو میری موٹی ویشن ایک ہی تھی جو کہ نظریہ پاکستان تھا ، اسلامی فلاحی ریاست ، یہ نظریہ مدینہ کی ریاست سے ہمارے آباؤ اجداد نے لیا ۔ہمارے ملک کے ویژن سے ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو پاکستان کا مقصد ختم ہو جاتاہے ، جب پاکستان بنا تھا تو بہت سے ہندوو پاکستان میں رہ گئے ، انہوں نے بھی پاکستان کی حمایت کی ، ہمارے علامہ اقبال اور قائداعظم نے جو ویژن دی تھی ، اس کی وجہ سے سارے ہندوستان کے مسلمان بھی متفق تھے کہ پاکستان بننا چاہیے ۔ ہم نے اپنی پارٹی بنائی تو یہ تین اصول رکھے کہ انصاف ، انسانیت اور خوداری ، تین اصولوں کو بجٹ میں نظر آنا چاہیے ، میں اپنی معاشی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتاہوں ، جب سے ہماری حکومت آئی جس جس نے ہماری معاشی ٹیم میں شرکت کی وہ سارے مبارک اور خراج تحسین کے مستحق ہیں ،جب ہماری حکومت آئی تو سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا ، ملک میں ڈالرز کتنے آ رہے ہیں اور ملک سے باہر کتنے ڈالر زجارہے ہیں ، یہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے ، ڈالرز کی کمی تھی جس سے ہماری کرنسی خطرے میں تھی ، ہم سب نئے تھے ، ٹیم نئی تھی ، تجربہ نہیں تھا ، اس لیے اپنی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتاہوں کہ ہم نے معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے بڑے قدم اٹھائے ۔ایک گھر مقروض ہو جاتا ہے ، آمدنی اور خرچے میں خسار ہ ہو جاتاہے ، کرائے دار پیسے مانگنے آ رہاہے ، تو وہ گھر دو چیزیں کرتا ہے ، وہ اپنے خرچے کم کرتاہے اور آمدنی کم کرتاہے ، جب خرچے کم کرتاہے تو تکلیف ہوتی ہے ، بچہ اگر اچھے سکول میں جارہاہے تو اسے کم اچھے سکول میں ڈالنا پڑتاہے ، گاڑی ہے تو موٹر سائیکل پر آنا پڑتا ہے ، جب تک اس کی آمدنی اوپر نہیں آتی ۔ مشکل فیصلے کرنے پڑے جس سے عوام مشکل سے گزری ، جب ملک اس مشکل میں پڑ جائے تو اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ، ترکی میں جب رجب طیب اردگان آئے تو انہیں بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ، انہیں بھی مشکل وقت سے گزرنا پڑا، ہماری معاشی ٹیم نے جس طرح فیصلے کیے ، چیلنجز لیے ، جس طرح ان چیلنجز سے نکلے ، ایک معاشی چیلنج تھا ، باہر دنیا سے پیسے اکھٹے کرنے کی کوشش کی ، ان ملکوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ہماری مدد کی ،ان میں چین ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات شامل ہیں ۔ان ممالک نے ہمیں ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ۔کرنسی کی قدر گرنے سے مہنگائی بڑھتی ہے ، ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے حکومت آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہے ، ہم نے پہلے کوشش کی کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں اور کوئی حل نکالیں ،لیکن آخر میں ہمیں جانا پڑا، آئی ایم ایف کی شرائط مشکل تھیں ، اس سے عوام کو تکلیف تھی ، اس چیلنج سے نکل ہی رہے تھے کہ کورونا آ گیا ، کورونا کا ساری دنیا کی معیشت پر اثر ہوا، ایک معیشت جو پہلے مسائل میں تھی اس پر کورونا آ گیا ۔ اسد عمر اور ان کی ٹیم کو بھی خراج تحسین پیش کرتاہوں ، کورونا سے نمٹنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کیئے گئے ۔آج ہم سارے پاکستانی وہ خوش قسمت قوم ہیں، ایران ، بھارت ، بنگلہ دیش، انڈونیشیا میں جو صورتحال ہے ، اس کے مقابلے میں اللہ نے ہمیں بچا لیا ہے ، یہ میرا ایمان ہے کہ ہم اس لیے بھی بچے کہ ہم نے جلدی فیصلہ کیا کہ ہم مکمل لاک ڈاؤن نہیں کریں گے ، ساری دنیا کا تجربہ ہے کہ لاک ڈاؤن سے غریب پس جاتاہے ، امریکہ میں بھی کھانے کیلئے قطاریں لگی ہوئی تھیں ، ہر جگہ دنیا میں غربت بڑھی ہے جہاں لاک ڈاؤن لگا ہے ، اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ لاک ڈاؤن لگایا جائے ، ہم نے فوری تعمیرات ، زراعت اور ایکسپورٹ انڈسٹری کا شعبہ کھولنے کا فیصلہ کیا ، سٹیٹ بینک نے بھر پور تعاون فراہم کیا ، احساس پروگرام کے ذریعے ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو شفاف طریقے سے پیس دلوائے ، پوری دنیا میں احساس پروگرام چوتھے نمبر پر آ گیاہے ۔اللہ کا شکرہے ہم بہترین طریقے سے نکل گئے ، ہم نے اپنی معیشت بھی بچا لی اور لوگوں کو بھی بچا لیا ، ایک اور چیلنج تھا جس لوگوں کو اندازہ نہیں ، ٹڈی دل نے حملہ کر دیا ، ، اس سے بھی اللہ نے ہمیں بچایا ۔ہم نے زراعت کی حفاظت کی ، گندم، گنا ، مکئی اور چاول کی ریکارڈ فصل ہوئی ہے ، اس کی وجہ سے معیشت اٹھی ، ہم نے بہت بڑا فیصلہ کیا کہ ہمارے کسان کو شوگر ملوں سے وقت پر پورا پیسہ ملے ، کیونکہ حکومت نے اس پر عملدرآمد کیا ، پیسہ پہلی مرتبہ کسانوں پر گیا ،کسانوں پر پیسہ آیا انہوں نے اپنی فصلوں پر لگایا ، اللہ کے کرم سے موسم بھی ٹھیک رہا اور ریکارڈ پیدوار ہوئی ، ہم نے ایکسپورٹ انڈسٹری کو فائدہ پہنچایا اور 17 فیصد ایکسپورٹس بڑھیں ، جون کا مہینہ تھا ، ہماری ایکسپورٹ 2.7 ارب ڈالر رہی جو کہ ریکارڈ ہے ، ہم نے باقاعدہ تعمیراتی شعبے میں لوگوں سے مذاکرات کر کے کوشش کہ انہیں انسینٹو دیئے جائیں ، کیونکہ اس سے کئی روزگار وابستہ ہیں ۔مستقبل میں ہم بہت واضح ہیں کہ پاکستان کا رخ کیا ہے ، ایکسپورٹس پر پوری توجہ دے رہے ہیں ، ابھی ہماری امپورٹس بڑھنے کی وجہ ایکسپورٹس کیلئے مشینری منگوائی جارہی ہے ، چھوٹی اور درمیانی انڈسٹری کو قرضے دینے کیلئے راستہ تلاش کر رہے ہیں ۔صوبہ پنجاب کسان کارڈ لا رہاہے ، جس سے ڈیٹابیس بنے گا ، کسانوں کو رجسٹرڈ کر رہے ہیں 13 ایکٹر سے کم زمین والے کسان کو براہ راست سبسڈی فراہم کی جائے گی ، کھاد سمیت دیگر چیزوں پر ، ان کی براہ راست مدد ہو گی ۔زراعت کے شعبے میں ٹیکسز میں چھوٹ دی ہے ، سب سے ضروری کام زراعت کے شعبے میں ریسرچ ہے ، ہماری پیداوار دنیا میں سب سے کم ہے ، ہم اگر اس پر کام کر لیں تو فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ ختم ہو جائے ۔ہم فوڈ امپورٹر بن چکے ہیں ، اب ہماری کوشش یہ ہے کہ ان کی پیدوار بڑھائیں اور فوڈ سیکیورٹی فراہم کریں، چھوٹے کسان کو سبسڈائز کرنے کیلئے کوشش کر رہے ہیں ۔چھوٹے کسان کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے ۔ کسان مارکیٹیں بنائیں گے جہاں کسان براہ راست دکاندار سے رابطے میں آ جائے گا، دودھ پاکستان کا بڑامسئلہ ہے ، دودھ ایسی چیز ہے جو کہ بچوں کیلئے سب سے اہم چیز ہے ، مسئلہ یہ بناہواہے کھلا دودھ استعمال کے قابل نہیں ہے ، جب ہم خراب دودھ کو ہٹاتے ہیں تو دو دھ مہنگا ہوجاتاہے ، یہ مسئلہ ایک دو سالوں میں ختم کر دیا جائے گا ، اس کیلئے ہم نے کافی پیسے رکھے ہیں ۔اب میں واپس آتاہوں کہ پاکستان میں اگر آگے بڑھنا ہے تو ہم ان اصولوں پر واپس جانا چاہیے جس کے مطابق پاکستان بنا ، سب سے پہلے اس بجٹ پر یہ خوشی ہوئی ہے ، یہ بجٹ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ پیسہ ہم نے سوشل پروٹیکشن کیلئے دیاہے ، ہماری تاریخ میں کبھی نچلے طبقے کو اوپر اٹھانے کیلئے اتنا کام نہیں کیا گیا ،پاکستان کو جس جانب جانا چاہیے تھا اس طرف نہیں گیا ۔چین اور بھارت کی آبادی ایک ارب سے زائد ہے ، آج چین کہاں چلا گیاہے اور بھارت کہاں ہے ، ہندوستان میں امیر اور غریب میں فاصلہ بڑھتا گیا ، چین نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے نچلے لوگوں کو اوپر لائیں گے ،چین نے کمزور طبقے کو اوپر اٹھانے کیلئے مختلف طریقے اختیار کیئے ، انہوں نے 35 سال میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا، اسی سال چینی صدر نے اعلان کیاہے کہ انہوں نے شدید غربت ملک سے ختم کر دی ہے ، ہندوستان کے پاس بھی اتنی بڑی مارکیٹ تھی لیکن وہ اقدامات نہیں کر سکے ۔ہمارے خاندانی نظام نے ہمیں بچایاہوا ہے ، آج ہمارا خاندانی نظام نہ ہو تو حالات بہت خراب ہو جائیں ، اگر کوئی بے روزگار ہو جائے تو خاندان اس کی مدد کرتا ہے ، پاکستان آج پہلی مرتبہ اسلامی فلاحی ریاست بننے جارہاہے جہاں 74 سال پہلے جانا چاہیے تھا ، 500 ا رب روپے ’’کامیاب پاکستان پروگرام‘‘ کیلئے رکھا ہے ، اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم چالیس سے پچاس لاکھ نچلے طبقے کے لوگوں کو اس پروگرام میں لائیں گے ،سود کے بغیر قرضے دیئے جائیں گے ، چھوٹے کسانوں کیلئے 3 لاکھ اور شہروں میں لوگوں کو پیسے دیں گے تاکہ لوگ اپنا کاروبار شروع کر سکیں ۔ہم شہریوں کیلئے وہ کام کر رہے ہیں جو میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ اللہ نے موقع دیا تو ضرور کریں گے اور وہ کام ہیلتھ انشورنس ہے ، پنجاب ، کے پی کے اور گلگت بلتستان ،بلوچستان کے سارے شہریوں کو ہم نے ہیلتھ انشورنس دینی ہے ، جس نے اس ملک میں غربت دیکھی ہے ، سب سے زیادہ عذات اس غریب خاندان پر آتا ہے جس میں بیماری آجاتی ہے ، وہ قرضے لیتے ہیں اور سارا خاندان غربت میں چلا جاتاہے ، سب سے زیادہ خوشی ہے کہ ہیلتھ انشورنس دے رہے ہیں ، یونیورسل ہیلتھ انشور نس دے رہے ہیں جو کہ امریکہ جیسی جگہ پر بھی نہیں ہے ، ہم مفت انشور نس دے رہے ہیں ، یہ صرف انشور نس نہیں بلکہ ماڈرن ہیلتھ سسٹم بنے گا ، ہیلتھ کارڈ سے دیہاتوں میں لوگوں کے پاس قوت خرید آئے گی ، وہ اپنا علاج کروا سکتے ہیں ، ہیلتھ کارڈ سے آپ سرکاری نہیں بلکہ کسی بھی ہسپتال سے علاج کروا سکتے ہیں ۔پرائیویٹ سیکٹر کیلئے ہم آسانیاں پیدا کر رہے ہیں ،اوقاف کی زمین کو سستے داموں میں ہسپتالوں کیلئے دیں گے ، جو بھی میڈیکل کا سامان پاکستان میں نہیں بنتا وہ باہر سے منگوانے پر ڈیوٹی فری ہو گا ۔ قرضے ، ہیلتھ کارڈ اور تیسری چیز ہم نے ٹیکنیکل ایجوکیشن دیں گے ، ایک خاندان میں ایک فرد کو ٹیکنیکل ایجوکیشن دیں گے تاکہ وہ ہنر مند ہو کر کمائی کر سکے ، اس کے بعد ہمارا پروگرام ’ سستے گھر ‘ شروع ہونے والا ہے ، تنخواہ دوار طبقہ ، غریب لوگوں کے پاس اپنا گھر بنانے کیلئے پیسے نہیں تھے ، شہروں میں کچی آبادیاں بڑھتی جارہی ہیں ، شہروں میں زمین مہنگی ہے ، یہ بہت بڑا قدم ہے کہ ہم نے بڑی محنت سے ایک قانون عدالتوں میں پھنسا ہوا تھا وہ ہم نے عدالتوں سے کلیئر کروا لیا ہے ، پھر بینکوں کے ساتھ بیٹھے ، سٹیٹ بینک کے گورنر بھی بینکوں کو غریب طبقے کو قرضے دینے پر راضی کر رہے ہیں ، ہمارا پروگرام ہے کہ سستے گھر غریب چالیس لاکھ خاندوں کو دیں گے ۔اگلے مہینے پاکستان کا ڈیٹا بیس مکمل ہو جائے گا ، ہم سافٹ ویئر بنا رہے ہیں ، جتنے بھی کریانہ اور یوٹیلیٹی سٹورز اس میں شامل ہوں گے ، احساس پروگرام کے ذریعے ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو براہ راست سبسڈی دی جائے گی ۔گھی ،آٹا، دالیں ، چینی سمیت کھانے کی ضروری اشیاء کسی بھی کریانہ سٹور سے سبسڈائز نرخوں پر لے سکیں گے ۔90 ہزار انڈر گریجویٹ سکالر شپ اپنے غریب طبقے کو دے رہے ہیں ۔ہماری ڈائریکشن فلاحی ریاست کی جانب ہو چکی ہے ، ہم نے جو پنا ہ گاہیں بنائی ہیں ، محنت کش لوگ ، مزدور کر کے پیسے بیوی بچوں کو بھیجتے ہیں ، یہ لوگ پناہ گاہ میں سو سکتے ہیں تاکہ ان کو کرایہ نہ دینا پڑے ، وہ پیسہ بچا کر اپنے بیوی بچوں کو بھیجیں ۔معاشرے کی بنیاد قانون کی حکمرانی ہے ، وہی معاشرہ خوشحال ہوا جہاں انصاف ہے ، ملک میں تباہی تب آتی ہے جب حکمران پیسہ چوری کر کے ملک سے باہر بھیجتے ہیں ، غریب ملکوں سے ایک ہزار اب ڈالر امیر ملکوں میں چوری ہو کر جا رہاہے ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں