اسلام آباد(پی این آئی) پاکستان مسلم لیگ ن نے 1100 سی سی گاڑیوں اورموبائل فون کال پر ٹیکس واپس لینے کا مطالبہ کردیا ہے، ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب نے کہا کہ عمران خان کو 5منٹ فون کال پر ٹیکس اثرات کا احساس نہیں ہوگا، 63 فیصد لوگ عام فون جبکہ صرف 37 فیصد سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں، ٹیکس سے عام لوگ متاثر ہوں گے۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ میٹرو اور اورنج لائن منصوبوں سے عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر ہے، دیگر صوبوں میں عوا م کو پبلک ٹرانسپورٹ کی ایسی سہولت میسر نہیں،دیگر صوبوں میں عوام کو آمدورفت کے شدید مسائل کا سامنا ہے، پشاور بی آرٹی کے نام پر126 ارب کے کھڈے کھودے گئے۔ انہوں نے کہا کہ مڈل کلاس کیلئے اس بجٹ میں بہت سخت اقدامات کیے گئے ہیں، 1100 سی سی گاڑیوں پر عائد ٹیکس واپس لیا جائے اور سفید طبقات کو عزت کی سواری کا حق دیا جائے۔اسی طرح پانچ منٹ کی فون کال پر ٹیکس ظالمانہ ہے، اس کو بھی واپس لیا جائے۔ کھانے پینے کی مہنگائی 16 فیصد اور بیروزگاری 15 فیصد ہے، صرف 37 فیصد لوگ سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں، دیگر لوگ عام فون استعمال کرتے ہیں جو اس ٹیکس سے متاثر ہوں گے،عمرا ن خان مودی کو مس کال مارتے ہیں، اور وہ فون نہیں اٹھاتے۔بجٹ میں غریب کو کچھ تو ریلیف دے دیں۔ کہتے تھے کہ ان ڈائریکٹ ٹیکس نہیں لگاؤں گا، لیکن 67 فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکس لگا دیے۔دوسری جانب قومی اسمبلی نے مالی 2021-22 کا بجٹ کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا، قومی اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم عمران خان، شریک چیئرمین پی پی آصف علی زرداری، چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زر داری ، پروڈیکشن آرڈر پر سید خورشید شاہ اور علی وزیر نے خصوصی طورپر شرکت کی تاہم قائد حزب اختلاف شہباز شریف اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ اجلاس کے دوران وزیر خزانہ شوکت ترین نے فنانس ترمیمی بل 2021-22 پیش کیا تو اپوزیشن کی جانب سے سخت مخالفت کی۔ایوان نے فنانس بل پیش کرنے کی تحریک کی زبانی منظوری لی جسے نواب تالپور نے چیلنج کردیا جس کے بعد اسپیکر نے گنتی کرنے کی ہدایت کی ۔ایوان میں گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد قومی اسمبلی نے فنانس بل پیش کرنے کی تحریک کو شق وار کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ فنانس بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 172 ووٹ آئے اور 138 ووٹ تحریک کے خلاف آئے جس کے بعد قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ نے بل کی شق وار منظوری کیلئے مسودہ پڑھ کر سنایا جس کے بعد قومی اسمبلی میں فنانس بل کی شق وار منظوری کا عمل مکمل ہوا اور اسپیکر نے بجٹ کی منظوری کیلئے وائس ووٹ کیا اور بجٹ کو منظور کر لیا گیا۔اپوزیشن نے وائس ووٹ کی مخالفت نہیں کی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کے پاس اسے مسترد کرنے کیلئے درکار ووٹ نہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں