اسلام آباد (پی این آئی) معروف کالم نگار انصار عباسی نے لاہور کے مدرسے میں طالب علم کے ساتھ زیادتی کے مرتکب استاد عزیز الرحمان کے بارے میں لکھا ہے کہ ،”میں اُس کے نام کے ساتھ مفتی نہیں لکھنا چاہتا۔ اُس کی حرکت، اُس کی بدفعلی، اُس کے کرتوت، کسی بھی دوسرے ایسے ہی جرم کے مرتکب افراد سے زیادہ سنگین ہیں کیونکہ اُس نے یہ بدفعلی مسجد و مدرسہ کی چار دیواری کے اندر کی۔ اُس کا جرم اس لئے بھی بڑا ہے کیونکہ اُس کی بدفعلی کا شکار ایک ایسا طالب علم تھا جو اُس سے اسلام پڑھنے کے لئے اُس کے مدرسہ میں آیا تھا۔انصار عباسی کا کہنا ہے کہ ،”اُس کا جرم اس لئے بھی دوسروں سے زیادہ سنگین ہے کیونکہ وہ اسلام کی تعلیم دیتا تھا، نمازیوں کو نماز پڑھاتا تھا لیکن اُس کا اندر کتنا گھٹیا اور گھناؤنا تھا، اس کا اندازہ اُس وڈیو کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے جو وائرل ہوئی اور جسے دیکھ کر گھِن آتی ہے۔ ایسے فرد کا مقدمہ اسپیشل کورٹ میں چلایا جانا چاہئے تاکہ فیصلہ جلد ہو، ایسے شخص کو سرِعام شرعی سزا دینی چاہئے تاکہ وہ دوسروں کے لئے مثال بنے۔ اس کی بدفعلی نے اگر ایک طرف ایک طبقہ کو علماء، مفتی حضرات اور مدرسوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا موقع دیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جیسے ہر مولوی اور ہر مدرسے کا یہی حال ہے تو دوسری طرف یہی موقع ہے پاکستان کے مدارس کی مختلف تنظیمات اور بڑے بڑے علمائے کرام کے لئے کہ وہ اس واقعہ کے تناظر میں ایک ایسا میکانزم بنائیں اور ہر ممکن اقدامات کریں کہ مساجد و مدارس میں ایسا کوئی واقعہ دوبارہ رونما نہ ہو اور اسلام کا لبادہ اوڑھے کوئی مجرم، کوئی درندہ کسی معصوم طالب علم سے زیادتی کا مرتکب نہ ہو سکے۔ ماضی میں ایسے واقعات کی شکایات ملتی رہی ہیں لیکن ایک طبقہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے جیسے مدرسوں میں یہ معمول کا عمل ہے جو نہ صرف بہتان تراشی ہے بلکہ مدرسوں اور علماء کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ لوگ جو مرضی کہیں لیکن میری نظر میں مسجد و مدرسہ میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہونا چاہئے اور ایسے واقعات کو روکنے کی ذمہ داری متعلقہ مدارس کے بورڈز، تنظیمات، انتظامیہ کے علاوہ علاقہ کے لوگوں اور ان مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین پر عائد ہوتی ہے۔ مدرسہ کے کسی اُستاد، ملازم یا مسجد کے کسی امام، موذن یا دوسرے کسی فرد کے متعلق کوئی شکایت ہو یا اُس کا ایسے معاملات میں عمل مشکوک ہو، اُسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔ ایسے افراد کو نہ صرف نکال باہر کیا جانا چاہئے بلکہ اُن کو پولیس کے حوالے کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایسا شخص جب کسی ایک مسجد یا مدرسہ سے نکال دیا جائے تو وہ کسی دوسری مسجد یا مدرسہ میں جانے کے قابل نہ ہو۔ساتھ ہی اسکول کے طالب علم ہوں یا مدارس کے، سب کو یہ شعور دیا جائے کہ اگر اُن سے کوئی غلط حرکت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ خاموش ہونے یا ڈرنے کی بجائے فوری طور پر اپنے والدین، اساتذہ، بھائی بہن، دوست، کسی کو بھی اس بات کی اطلاع دیں۔ کچھ عرصہ قبل میری ایک نامور عالم دین سے ملاقات ہوئی، وہ ایک اہم مدرسہ چلاتے ہیں جس میں دین اور دنیا دونوں کی اعلیٰ لیول تک تعلیم دی جاتی ہے۔اُن کے مدرسہ کی بہت اچھی شہرت ہے۔ وہ مجھے بتا رہے تھے کہ چونکہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور جدید موبائل فون ہر ایک کے لئے معمول بن چکے ہیں، اس لئے اُنہوں نے اپنے مدرسہ میں آئی ٹی ایکسپرٹس کے ذریعہ ایک سسٹم لاگو کیا ہے جس سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ کون انٹرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے کس قسم کی سائٹس کو Visitکرتا ہے اور اِس بارے میں کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔مقصد یہ ہے کہ گندگی اور گندی سوچ کو پیدا کرنے والے ذرائع کو ممکنہ حد تک مدارس میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔ ویسے تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن علمائے کرام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مساجد و مدارس کے ذریعے معاشرے کی کردار سازی اور تربیت میں اہم کردار ادا کریں۔ دوسروں کو اچھے کام کرنے اور بُرے کاموں سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ مساجد و مدارس میں کسی کالی بھیڑ کو گھسنے کا موقع نہ ملے اور جب کوئی ایسا فرد کسی مسجد و مدرسہ سے منسلک ہو اور پکڑا جائے تو اُس کے خلاف سخت ترین ایکشن لیا جائے۔ ایسے گھناؤنے کرداروں کے لئے نہ کوئی رعایت ہونی چاہئے، نہ کوئی دوسرا چانس۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں