اسلام آباد (پی این آئی) پاکستان بیرونی قرضوں کی مد میں سالانہ 10 سے 12 ارب ڈالرز وصول کر رہا ہے، آئی ایم ایف اور ہماری منزل ایک ہی ہے، وفاقی وزیر عمر ایوب نے اعتراف کر لیا- تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے معاشی امور عمر ایوب نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف اور ہماری منزل ایک ہی ہے، لیکن ہمارے کام کرنے کے طریقے میں اختلاف ہو سکتا ہے، عمرایوب کا کہنا تھا کہ پاکستان بیرونی قرضوں کی مد میں سالانہ 10 سے 12 ارب ڈالرز لے رہا ہے اور اس میں سے 90 فیصد رقم سابقہ حکومتوں کے لیے ہوئے قرضوں کی ادائیگیوں پر خرچ ہورہا ہے۔برطانوی خبرایجنسی سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے معاشی امور عمر ایوب کاکہنا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور ہماری منزل پاکستان کی ترقی اور خوشحالی ہے، اور وزیر اعظم عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم نے بھی آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ ہماری منزل ہماری ایک ہی ہو گی لیکن ہمارے طریقہ کار میں اختلاف ہوسکتا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں روپے کی قدر میں کمی کی بات کی، جب کہ ان کے ہی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے یہ سلسلہ شروع کیا۔سابقہ حکومت نے ڈالر کی قدر کو مصنوعی طور پر کم کیا، جس کے باعث ملکی برآمدات پر منفی اثر پڑا اور ہماری درآمدات سستی ہوگئیں، اور ہرچیز باہر سے آنا شروع ہوگئیں، مسلم لیگ ن نے 24 ارب ڈالرز صرف روپے کو 100پر رکھنےکے لیے استعمال کیے۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ جب تک وزارت توانائی کا قلمدان میرے پاس تھا ہم نے آئی ایف کو کہا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اشیا خورونوش چینی، گندم، آٹا اور تیل کی قیمتیں دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں کم ہیں، ہمارا ملک تیل پیدا کرنے والا ملک نہیں لیکن پھر بھی یہاں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں خطے کی نسبت کم ہیں۔ نجی شعبوں میں مزدور کو کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے کی فراہمی ممکن ہے، لیکن مارکیٹس میں اسے یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ آئی ایم ایف کے پیکج کے حوالے سے اپنے ایک حالیہ بیان میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے دور میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اچھا پیکج دیا تھا لیکن اس بار ہمیں آئی ایم ایف کی کڑوی گولی کھانا پڑی۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے شوکت ترین کا کہنا تھاکہ حکومت جب آئی تو گروتھ کے باوجود مسائل بہت زیادہ تھے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 19 سے 20 ارب ڈالر تھا، مجموعی مالی خلا 28 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈالرختم ہونے کے باعث ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، آئی ایم ایف اس بار پاکستان کے ساتھ فرینڈلی نہیں تھا، پیپلزپارٹی دور میں آئی ایم ایف نے اچھا پیکج دیا تھا لیکن اس بار ہمیں آئی ایم ایف کی کڑوی گولی کھانا پڑی۔شوکت ترین کا کہنا تھاکہ آئی ایم ایف نے شرح سود 13.25 فیصد تک لے جانے کا مطالبہ کیا، اس سے ایک سال میں قرضوں کی لاگت 1400 ارب روپے بڑھ گئی، شرح تبادلہ بھی 168 تک چلاگیا، غیرملکی قرضہ کی لاگت بڑھ گئی، بجلی اور گیس کے ٹیرف بھی بڑھا دیے گئے، اس سے مہنگائی بڑھی اور انڈسٹری پر بھی منفی اثر پڑا، اس سے معیشت سست روی کا شکار ہوگئی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں