اسلام آ باد ( آ ئی این پی ) قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنمائوں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مولانا اسعد محمود، عائشہ غو ث پاشا و یگر نے حکومت کے آئندہ مالی سال کے بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ جھوٹ کا مجموعہ ہے، یہ بجٹ جعلی اعدادوشمار کا ایسا پلندہ ہے کہ جسے فیس بک اور ٹویٹر صارفین کو متاثر کرنے کے لئے بنایا ہے، این ایف سی ایوارڈ کے بغیر بجٹ پیش کرنا غیرقانونی ہے، عوام حکومت کی مہنگائی کے سونامی میں ڈوب رہی ہے، اگر معاشی ترقی ہورہی ہے تو ملک میں تاریخی غربت کیوں ہے، پارلیمان میں پی ٹی آئی نے جو کیا، اس کی سیاسی قیمت ادا کرنی ہوگی،کشمیر پر سودا کرنے والوں اور کلبھوشن کو این آر او دینے کی کوشش کرنے والوں نے اپوزیشن لیڈر کو بجٹ کی کتاب مارنا مناسب سمجھا ، وزیراعظم نے ایک کھرب روپے کے کراچی پیکج کا اعلان کیا مگر بجٹ میں ایسا کوئی پیکج نہیں رکھا گیا،کسانوں کو بجٹ میں سبسڈی تک نہیں دی گئی ، اس بجٹ میں امیروں کے لئے ریلیف اور عام آدمی کے لئے تکلیف ہے، ملک میں گھوڑوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہوا مگر گدھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے،بجٹ میں ان لوگوں کو ریلیف دیا گیا ہے جو پی ٹی آئی کو الیکشن میں سپورٹ کرتے رہے ہیں،نیا مالی سال شروع ہوتے ہی ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان شروع ہو جائے گا جس سے مجھے یہ کمپنی نہیں چلتی دکھائی دیتی،حکومت پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر حکومت آئی ایم ایف سے ریلیف لینے کی شرط پر امریکہ کو آڈے دیگی تو ہم اسکی اجازت نہیں دیں ، آئندہ سال 1000 ارب کا ریونیو شارٹ فال ہو گا، حکومت نے بجٹ میں لمبے لمبے وعدے اور خواب دکھائے ہیں لگتا ہے الیکشن 2023 میں نہیں اسی سال ہے،آئی ایم ایف سے جو رقم ابھی ہمیں ملی ہی نہیں اسکو بھی ظاہر کر دیا گیا ہے، بجٹ میں بڑے بڑے بروکرز کو کھلی چھٹی دیدی،قوم کیساتھ جھوٹ بولا جا رہا ہے میں چیلنج کرتی ہوں وزیر خزانہ کو کہ تقریریں چھوڑیں اور ہمارے ساتھ مناظرہ کرلیں، میں یہ بھی قوم کو بتانا چاہتی ہوں کے 610 ارب کا پیٹرول بم گرنے والا ہے تیاری کرلیں جبکہ وزیر توانائی حماد اظہر نے کہاکہ جنہوں نے زندگی میں کبھی کوئی کام نہیں کیا وہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ ملک کیسے چلانا ہے جبکہ سینے پر لگے کرپشن کے داغ انگریزی بولنے سے صاف نہیں ہوں گے، ہمیں آج ایک نابالغ لیکچر ملا، ہماری حکومت کو کٹھ پتلی کہا گیا، کیا آپ ایسی حکومت چاہتے ہیں جس میں ناموں سے نہیں بدترین اسکینڈلز سے لوگوں کو یاد کیا جاتا ہے، مہنگائی کی شرح بھی ان کے دور میں موجودہ شرح ساڑھے 8 فیصد سے زیادہ تھی ،ہم نے سابق فاٹا اور آزاد جموں و کشمیر میں کوئی ٹیکس نہیں لگایا، پاکستان میں اس وقت پیٹرول دنیا میں سب سے سستا ہے، ہمارے حلقوں موئن جو دڑو والے حالات نہیں ہیں، اگر کرپشن کرکے ترقی ہوتی تو سندھ آج کیلی فورنیا سے بھی آگے نکل گیا ہوتا، آج ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 6 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں، ہمیں پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ 10 سے 12 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ واپس کرنا پڑ رہا ہے، معیشت کا رخ ہم نے چند مافیاز اور لابیز سے ہٹا کر زراعت کی طرف کیا ہے، دیگر صوبوں کو پنجاب سے زیادہ پی ایس ڈی پی فنڈز دیے گئے ہیں، ایک ارب کے بعد اب 10 ارب درخت لگا رہے ہیں، فیٹف کے ایکشن پلان پر جتنا ہم نے عملدرآمد کیا شاید ہی کسی نے کیا ہو اور اب ہمیں بلیک لسٹ ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہوا، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آئندہ مالی سال کے بجٹ پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ این ایف سی ایوارڈ کے بغیر بجٹ اور بجٹ سیشن غیرقانونی ہے، بجٹ اجلاس میں شرکت ہر رکن قومی اسمبلی کا حق ہے جبکہ تین اراکین کو اختیار کے باوجود اسپیکر نے پراڈکشن آرڈرز جاری نہیں کئے، علی وزیر، خورشید شاہ، خواجہ آصف کو بجٹ سیشن میں شرکت سے محروم کیا گیا، ابھی علی وزیر، خورشید شاہ، خواجہ آصف کے پراڈکشن آرڈر جاری کرکے انہیں بجٹ سیشن میں بلایا جائے، اگر اپوزیشن نے اپوزیشن کرنا ہے اور حکومت نے بھی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہے تو حکومت کون کرے گا، جو لوگ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران ہیں، ان کا رویہ اسکول کے بچوں کی طرح ہے، خبردار! جو آئندہ آپ لوگوں نے اس ناکام اور نااہل حکومت کے لئے ریاست مدینہ کا لفظ استعمال کیا، یہ چاہتے تھے کہ اپوزیشن کو موقع نہ دے کر پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ بے نقاب نہ ہو، یہ سمجھتے تھے کہ جی ڈی پی کی غلط شرح نمو اور جھوٹی معاشی ترقی کو اپوزیشن کی آواز دبانے سے چھپالیا جائے گا، ان کو پتہ نہیں تھا کہ عوام کو اپوزیشن کی تقریروں سے بجٹ کا علم نہیں ہوگا بلکہ انہیں پہلے سے علم ہے کیونکہ وہ مہنگائی کا سامنا کررہے ہیں، وہ شخص جو اپنی ماں کے لئے دوائی نہیں خرید سکتا، اسے علم ہے کہ چار فیصد شرح نمو کا دعوی غلط ہے، وہ مزدور جو عمران خان کی مہنگائی کی وجہ سے اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج سکتا، اسے پتہ ہے کہ عمران خان کی معاشی ترقی کے دعوے جھوٹے ہیں، پاکستان میں مہنگائی افغانستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے زیادہ ہوچکی ہے، پی پی پی دور میں بھی مہنگائی تھی، عالمی معاشی بحران تھا، دو بڑے سیلاب آئے مگر ہم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام لائے اور عوام کو لاوارث نہیں چھوڑا، آپ احساس احساس کہتے ہو، آپ کو کوئی احساس نہیں، مہنگائی، غربت، بے روزگاری میں تاریخی اضافہ مگر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں معمولی اضافہ کیا گیا، جب ہمارے دور میں مہنگائی ہوئی تو ہم نے تنخواہوں کی مد میں اضافہ کیا، ہم نے مجموعی طور پر تنخواہوں میں 120 فیصد اضافہ کیا،آپ نے صرف دس فیصد تنخواہوں میں اضافہ کیا اور عوام کو لاوارث چھوڑا،پیپلز پارٹی نے تو پنشن میں بھی سو فیصد اضافہ کیا، ہم نے تو سرحدوں کے تحفظ کرنیوالے سپاہیوں کی تنخواہوں میں 175 فیصد اضافہ کیا، کم سے کم تنخواہ سندھ حکومت نے اب بھی 25 ہزار رکھی ہے،آپ نے سرکاری ملازمین سے احتجاج کے بعد معاہدہ کیا تھا،آپ نے سرکاری ملازمین کو دھوکہ دیا، جس طرح سے آپ نے لوگوں کو لاوارث چھوڑا وہ کبھی آپکو معاف نہیں کریں گے، آپ نے تنخواہوں میں کتنا اضافہ کیا، جب کرونا وائرس کی وبا وجہ سے عوام پریشان تھے تو آپ نے تنخواہوں میں بالکل اضافہ نہیں کیا، ہم نے تو ملکی ترقی کے لئے ساری زندگی محنت کرنے والے بزرگ پنشنرز اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے والے سپاہیوں کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا، حکومت نے احتجاج کرنے والے سرکاری ملازمین سے تنخواہ میں اضافے کا معاہدہ کیا اور ان کو بھی دھوکا دے دیا، آپ اس بجٹ میں بلاواسطہ ٹیکسوں کا ایک طوفان لائے ہیں، اگر معاشی ترقی ہورہی ہے تو ملک میں تاریخی غربت کیوں ہے، نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر روزگار کے لئے دھکے کھارہے ہیں، پنجاب میں چار فیصد اور بلوچستان میں دو فیصد غربت میں کمی ہوئی ہے، خیبرپختونخوا میں 8.9 فیصد غربت میں اضافہ ہوا ہے، سندھ میں غربت کی شرح میں 7.6 فیصد کمی ہوئی ہے، پی ٹی آئی کے اراکین اپنے انتخابی حلقوں میں منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں، ملتان میں ایک خاتون نے مہنگائی کی وجہ سے اپنے بچوں کے قتل کے بعد خودکشی کرلی اور ایسے موقع پر ملتان کے ایک رکن قومی اسمبلی معاشی ترقی کے راگ الاپ رہے تھے، عمران خان اس لئے پریشان ہوئے کہ انہیں کسی نے ڈونکی کہا اور پھر انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے دوستوں کو بھیج کر انتشار پیدا کیا، پارلیمان میں پی ٹی آئی نے جو کیا، اس کی سیاسی قیمت ادا کرنی ہوگی، ہم اس دن کو بھولنے نہیں دیں گے، یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ میری تقریر کو سنسر کرکے وزیراعظم کی پسند کے مطابق نہیں بناسکتے، کشمیر پر سودا کرنے والوں اور کلبھوشن کو این آر او دینے کی کوشش کرنے والوں نے اپوزیشن لیڈر کو بجٹ کی کتاب مارنا مناسب سمجھا، پارلیمان میں جو ہوا، اس کے بعد پاکستان کی حکومت کے بارے میں اسلام آباد میں موجود ہر سفارت خانہ اپنے مشاہدات لکھ رہا ہے، اسپیکر صاحب! آپ کے بچوں نے آپ سے دریافت نہیں کیا کہ کیا یہ طریقہ ہے ملک کو چلانے کا، جب بھی ہم 18ویں آئینی ترمیم اور این ایف سی کی بات کرتے ہیں، ہمیں سندھ کارڈ کا طعنہ دیا جاتا ہے،18ویں آئینی ترمیم اور این ایف سی پر عمل درآمد ایک آئینی ذمہ داری ہے، یہ کوئی آپشن نہیں ہے، آئینی فرائض تو دور کی بات، آپ تو صوبوں سے اپنے وعدوں کی تکمیل تک نہیں کرپارہے، یہ معاملہ صرف سندھ کا نہیں بلکہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے فنڈز روک کر بھی ان کے حق پر ڈاکا مارا جارہا ہے، اب سندھ کا وزیراعلی جرمنی اور جاپان کی تو بات نہیں کرے گا، اگر صوبے سے زیادتیوں پر وزیراعلی تنقید نہیں کرے گا تو کیا ٹرمپ تنقید کرے گا، گیس کہیں اور فراہم کرنے سے قبل آپ کو سوئی اور گھوٹکی کے رہنے والوں کو پہلے گیس فراہم کرنا ہوگا، وفاقی حکومت کے سندھ سے تعلق رکھنے والے وہ ایف آئی اے ملازمین جن کی بھرتیاں نوے کی دہائی میں ہوئیں، ان کو فارغ کردیا گیا، سندھ پبلک سروس کمیشن کو بند کرکے سندھ کے نوجوانوں کو روزگار سے محروم رکھا جارہا ہے، اسٹیل ملز کو بند کرکے ہزاروں گھرانوں کو بے روزگار کیا گیا، وزیراعظم نے ایک کھرب روپے کے کراچی پیکج کا اعلان کیا مگر بجٹ میں ایسا کوئی پیکج نہیں رکھا گیا، سابق قبائلی علاقوں کا کاغذی انضمام کرکے ان پر ٹیکس لگادیا، کشمیری حیران ہیں کہ ان پر بھی ٹیکس لگادیا، زراعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور اس مد میں بجٹ کے اندر محض 12 ارب روپے رکھے گئے ہیں، کسانوں کو بجٹ میں سبسڈی تک نہیں دی گئی اور آپ چاہتے ہیں کہ پنجاب کا کسان بھارت کے کسان سے مقابلہ کرے، گندم کاشت کرنے والے اگر آج خوش ہیں تو اس کا کریڈٹ آپ نہیں لے سکتے، وزیراعظم گندم کی امدادی قیمت 1600 روپے رکھنا چاہتے تھے، سندھ نے دوہزار روپے مقرر کْی تو پنجاب میں 1800 روپے امدادی قیمت رکھی گئی، جب ہم حکومت میں آئے تو پاکستان گندم بیرون ملک سے خرید رہا تھا اور ایک سال میں ہم بیرون ملک کو گندم بیچ رہے تھے، ہم نے اپنے دور میں سالانہ ایک ارب ڈالر اضافے کے ساتھ ایکسپورٹ کو 25 ارب ڈالر تک پہنچایا، عالمی اداروں کے مطابق دیہی و شہری سندھ کی فی کس آمدنی پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ہے، پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا کہ جب تک بلوچستان کے عام آدمی کو اس کا فائدہ نہ ہو، بجٹ جھوٹ کا مجموعہ ہے، یہ بجٹ جعلی اعدادوشمار کا ایسا پلندہ ہے کہ جسے فیس بک اور ٹویٹر صارفین کو متاثر کرنے کے لئے بنایا ہے، اگر معاشی ترقی ملک میں زیادہ ہوچکی ہے تو کیوں عمران خان آئی ایم ایف کے آگے کشکول لے کر کھڑے ہیں، انتخابی عمل کے حوالے سے آپ کی قانون سازی دراصل ایک بار پھر عوام کے ووٹ پر ڈاکے کی کوشش ہے، افغانستان سے متعلق حکومتی پالیسی پر ہمارے کچھ خدشات ہیں، ہم دیکھ چکے ہیں کہ آمر ضیا اور مشرف نے افغان جنگ سے ذاتی فائدے اٹھائے، ہم یہ اجازت نہیں دیں گے کہ جب افغانستان کا معاملہ ایک نئے فیز میں داخل ہورہا ہے تو عمران خان اس کو ملکی فائدے کے بجائے اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کریں، میں نے بہت کوشش کی کہ میں عمران خان کا اچھا کارنامہ تلاش کرلوں تاکہ پاکستان کے عوام کو کوئی خوش خبری بھی دے سکوں، میں نے صنعتی سیکٹر کو دی جانے والی ایمنسٹی کا معاملہ دیکھا مگر اس میں عام آدمی کو کچھ نہیں ملا، اس بجٹ میں امیروں کے لئے ریلیف اور عام آدمی کے لئے تکلیف ہے، اکنامک سروے کے مطابق ملک میں گھوڑوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہوا مگر گدھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور میں عمران خان کی حکومت میں ایک یہی کارنامہ ڈھونڈ سکا ہوں، بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ اگر مہنگائی ہے تو لوگوں کو مالی امداد پہنچنی چاہیے، اگر آپ کہیں گے آپکے وزیر اعظم کی پسند کی تقریر ہوایسے نہیں ہو سکتا، وہ جو کشمیر کا سودا کر سکتا ہے کلبھوشن کو این آر او دینے کی کوشش کر رہا ہے، آپ نے کسان پر بوجھ ڈالا ہے، اگر اچھے حالات ہیں تو آئی ایم ایف کی ڈیل سے حکومت کیوں نہیں نکلتی، عوام کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی اس بار اجازت نہیں دیں گے، اگر زبردستی قانون سازی کرائی گئی تو ہم ہر عدالتی فورم پر جائیں گے، افغانستان کا مسئلہ ایک خطرناک مرحلے میں داخل ہورہا ہے، اجلاس کے دوران قومی اسمبلی میں یوسف رضا گیلانی اور شیری رحمن بھی مہمان گیلریوں پر موجود رہے اور بلا ول بھٹو کی تقریر سنی ،اسپیکر قومی اسمبلی نے یوسف رضا گیلانی کو ایوان میں خوش آمدید کہا، اسپیکر اسد قیصر نے کہاکہ بجٹ اجلاس کے بعد افغان مسئلے اور قومی سلامتی سے متعلق امور پر بریفننگ لی جائے گی۔وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے کہا کہ جنہوں نے زندگی میں کبھی کوئی کام نہیں کیا وہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ ملک کیسے چلانا ہے جبکہ سینے پر لگے کرپشن کے داغ انگریزی بولنے سے صاف نہیں ہوں گے۔میں اپوزیشن کو چیلنج کرتا ہوں کہ میری مکمل تقریر سنیں، اپوزیشن لیڈر اور بلاول بھٹو زرداری میں جرات ہے تو میری تقریر سن کر جائیں۔ہمیں آج ایک نابالغ لیکچر ملا۔ہمیں آج ایک نابالغ لیکچر ملا اور یہ نابالغ لیکچر انہوں نے دیا جنہوں نے زندگی میں کبھی کوئی کام یا کاروبار نہیں کیا، انہوں نے ہمیں بتایا کہ ملک و معیشت کیسے چلانی ہے، لیکن میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ منہ ٹیڑھا کرکے اور انگریزی بول کر کردار و دامن صاف نہیں ہوجاتے، سینے پر لگے کرپشن کے داغ انگریزی بولنے سے صاف نہیں ہوں گے۔حماد اظہر کے تند و تیز الفاظ پر اپوزیشن نشستوں سے شور بلند ہوا اور شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری ایوان سے چلے گئے۔حماد اظہر نے کہاکہ ہماری حکومت کو کٹھ پتلی کہا گیا، کیا آپ ایسی حکومت چاہتے ہیں جس میں ناموں سے نہیں بدترین اسکینڈلز سے لوگوں کو یاد کیا جاتا ہے، ہمیں عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد کے بعد عوام نے منتخب کیا ہے، ہم کوئی 10 یا 20 فیصد کی بنیاد پر یا چند جاگیرداروں کو پیسے دے کر یہاں نہیں آئے۔جو ہمیں ملک چلانا سکھا رہے ہیں، ان ہی کی بینچز سے آواز آئی کہ گالی دینا پنجاب کی ثقافت ہے، ایسا کہنے والا پنجاب کی تاریخ، ثقافت اور تہذیب کو مسخ کر رہا ہے، ایسے شخص کے خلاف اسپیکر تحریک استحقاق لائیں اور انہیں کٹہرے میں کھڑا کریں۔بلاول نے مہنگائی اور 4 فیصد کی شرح نمو پر بہت بات کی یہ کہاں سے آگئی، اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کو بہت تکلیف ہو رہی ہے جن کے دور حکومت میں کوئی ایک سال ایسا نہیں تھا جس میں انہوں نے 4 فیصد شرح نمو حاصل کی ہو، مہنگائی کی شرح بھی ان کے دور میں موجودہ شرح ساڑھے 8 فیصد سے زیادہ تھی۔حماد اظہر نے کہا کہ بلاول نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بات کی، یہ وہی پروگرام ہے جس میں ان کی رہنما فرزانہ راجا ڈیڑھ ارب روپے کی کرپشن کے الزام میں مفرور ہیں، ہم حکومت میں آئے تو دیکھا کہ پروگرام میں رجسٹرڈ لاکھوں لوگ صاحب حیثیت تھے اور انہیں صرف پیپلز پارٹی سے وابستگی کی وجہ سے وظیفے دیے جارہے تھے، پروگرام سے ہزاروں سرکاری افسران کو نکالا گیا۔انہوں نے کہا کہ ان کے دور میں اس پروگرام میں 30 سے 35 لاکھ لوگ تھے، ہم نے ایک کروڑ 60 لاکھ گھرانوں کو احساس پروگرام کے ذریعے مدد پہنچائی ہے۔غربت اور بیروزگاری کے حوالے سے چیئرمین پیپلز پارٹی نے اپنی بات کو خود ہی متضاد بنا دیا، ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ تین صوبوں میں غربت کی شرح میں کمی آئی ہے اور دوسری طرف کہہ رہے ہیں کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ہم نے سابق فاٹا اور آزاد جموں و کشمیر میں کوئی ٹیکس نہیں لگایا، پاکستان میں اس وقت پیٹرول دنیا میں سب سے سستا ہے، لیوی 2 فیصد اور سیلز ٹیکس 17 فیصد ہے، ہم نے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھنے کے باوجود پیٹرول اس طرح مہنگا نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ بلاول نے کہا کہ ہم کس منہ سے اپنے حلقوں میں جاتے ہیں، ہمارے حلقوں میں کتے کاٹنے کی وبا نہیں پھیلی ہوئی، ہمارے حلقوں میں لوگ ایچ آئی وی اور ایڈز سے محفوظ ہیں، ہمارے حلقوں موئن جو دڑو والے حالات نہیں ہیں۔کراچی کے اراکین قومی اسمبلی کے لیے جس حقارت سے الفاظ استعمال کیے گئے ان سے لگ رہا تھا کہ ایک پالیسی کے تحت ایسا کیا گیا، جو انقلاب اور سیاسی تبدیلی کراچی میں آئی ہے اگلے الیکشن میں سندھ کے دیہی علاقوں میں بھی آئے گی، چند جاگیرداروں کو ڈرا دھمکا کر اور انہیں پیسے دے کر حکومت کرنے کا سلسلہ اب زیادہ دیر نہیں چلے گا۔کوئی دیکھنا چاہتا ہے کہ کرپشن سے کیا تباہی آتی ہے تو سندھ کا حال دیکھ لے۔میں نے ان دونوں جماعتوں کے لوگوں کو یہ بات کرتے سنا ہے کہ ٹھیک ہے کرپشن ہوتی ہے لیکن کام بھی نکلتا رہتا ہے، اگر کرپشن کرکے ترقی ہوتی تو سندھ آج کیلی فورنیا سے بھی آگے نکل گیا ہوتا، اگر کوئی دیکھنا چاہتا ہے کہ کرپشن سے کیا تباہی آتی ہے تو وہ سندھ کا حال دیکھ لے، چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ سندھ بیرون ملک بیٹھا یونس میمن چلا رہا ہے۔ڈی اے پی کی قیمت بالکل بڑھی ہیں لیکن انہوں نے کیونکہ خود کبھی کاشتکاری نہیں کی اس لیے انہیں نہیں معلوم کہ پاکستان، 70 فیصد سے زائد ڈی اے پی درآمد کرتا ہے اور دنیا بھر میں اس کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔بلاول نے کہا کہ افغانستان کے لیے کسی کو اڈا نہیں دیں گے، یہ وہ جماعت ہے جو امریکا کو کہتی تھی تم ڈرون حملے کرتے جاؤ ہم مذمت کرتے جائیں گے، لوگ مرتے ہیں تو مر جائیں ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔وزیر توانائی نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں آئی ایم ایف کے پاس پیپلز پارٹی سب سے زیادہ گئی ہے اور آج اپنی تقریر بڑھانے کے لیے بلاول کشکول اور بھیک کی بات کر رہے تھے۔معیشت کا رخ زراعت کی طرف موڑ دیا ہے۔بجٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا تیسرا بجٹ ہے، میں نے جب پہلا بجٹ پیش کیا تھا تو اسی میں کہا تھا کہ ہم پہلے دو سال استحکام کے عمل سے گزریں گے اور اس کے بعد نمو کے مرحلے میں داخل ہوں گے۔آج ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 6 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں، 9 ارب ڈالر کے ذخائر 16 ارب ڈالر پر پہنچ چکے ہیں، ہمیں پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ 10 سے 12 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ واپس کرنا پڑ رہا ہے۔حماد اظہر نے کہا کہ آج ہم 4 فیصد سے نمو حاصل کر رہے ہیں اور 80 کروڑ ڈالر کا سرپلس اکاؤنٹ ہے، آج ہمیں انٹرنیشنل ریٹنگ ایجنسیوں نے نہ صرف اپ گریڈ کیا بلکہ فوربز اور جے پی مورگن میگزینز اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی اصلاحات کی وجہ سے ہمیں بہترین اقتصادی پیش گوئی مل رہی ہے۔اسی معاشی سفر کے دوران ہم پر وبا کی آفت آئی اور کہا گیا کہ سب کچھ بند کردو، میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ ہم نعروں پر نہیں ڈیٹا کی بنیاد پر فیصلے کریں گے، ہم نے زندگیوں کے ساتھ روزگار بچانے کا بھی فیصلہ کیا جس کی آج دنیا بھر میں پذیرائی کی جارہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ملک میں صنعتیں دوبارہ چل پڑی ہیں، برآمدات میں اضافہ ہورہا ہے، معیشت کا رخ ہم نے چند مافیاز اور لابیز سے ہٹا کر زراعت کی طرف کیا ہے، ہم نے دیامر بھاشا اور داسو ڈیمز پر توجہ دی، دیگر صوبوں کو پنجاب سے زیادہ پی ایس ڈی پی فنڈز دیے گئے ہیں، چھوٹے شہروں پر توجہ مرکوز کی، ایک ارب کے بعد اب 10 ارب درخت لگا رہے ہیں، فیٹف کے ایکشن پلان پر جتنا ہم نے عملدرآمد کیا شاید ہی کسی نے کیا ہو اور اب ہمیں بلیک لسٹ ہونے کا خطرہ نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر ہم نے کرپشن سے پاک حکومت قائم کی۔جے یو آئی (ف)کے پارلیمانی لیڈر مولانا اسعد محمود نے کہا کہ حکومت نے عجلت میں قانون سازی کی، اپوزیشن کے موقف کو نظر انداز کیا گیا اپوزیشن نے کورم کی بھی نشاندہی کی مگر ڈپٹی سپیکر نے اسکو بھی نظر انداز کیا گیا اس روز سے ایوان میں بدمزگی بڑھ گئی،ان بلوں میں الیکشن سے متعلق بھی بل تھا، حکومت کے پاس اکثریت تھی، ہمارا موقف تھا کہ ہمارے موقف کو بھی سنا جائے، بجٹ تقریر پر احتجاج اس لئے کیا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عوام دشمن بجٹ تھا اس بجٹ میں پی ٹی آئی کور کمیٹی کو ریلیف دیا گیا اور ان لوگوں کو ریلیف دیا گیا جو پی ٹی آئی کو الیکشن میں سپورٹ کرتے رہے ہیں،اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران جو ہنگامہ ہوا اس پر جن ارکان کو معطل کیا گیا ان میں ایک ایسا رکن بھی تھا جو اس ہنگامے میں شریک نہیں تھا وہ رکن پارلیمنٹ آیا ضرور تھا مگر اس وقت پارلیمنٹ کی حدود میں نہیں تھا اس پر بھی پابندی لگائی گئی، جبکہ دوسری طرف وزراء جو ڈیسک پر کھڑے ہو کر نشانہ بنا کر اپوزیشن لیڈر پر کتابیں مارتا رہا اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی، سپیکر نے جانبدارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے ارکان پر پابندی لگائی، ہمارا مطالبہ ہے کہ اس افسوسناک واقعہ کی غیر جانبدرانہ تحقیقات کی جائیں، انہوں نے کہا کہ آئینی تقاضا پورا کرتے ہوئے حکومت نے بجٹ پیش کیا مگر اس آئینی کام کو ایک رسم بنا دیا گیا ہے، نیا مالی سال شروع ہوتے ہی ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان شروع ہو جائے گا جس سے مجھے یہ کمپنی نہیں چلتی دکھائی دیتی،اپوزیشن لیڈر نے بجٹ پر حقائق پر مبنی تقریر کی، اپوزیشن کے دیگر ارکان نے نیک نیتی سے حکومت کو تجاویز دیں، حکومت کی جانب سے ان تجاویز کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے تھا مگر جیسے ہی اپوزیشن لیڈران نے تقریر ختم کی جس پر حکومت نے جواب دیا وہ تمسخر اڑانے کے سوا کچھ نہیں تھا،وزیراعظم کو ایوان میں بیٹھ کر اپوزیشن کی تجاویز سننی چاہیے، قائد ایوان مسلہ کشمیر، مسلہ فلسطین سمیت کسی اہم مسئلہ پر ایوان میں نہیں آتے ناموس رسالت کا مسلہ آیا تو اپکا وزیراعظم ایوان سے غائب تھا، حکومت کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ بجٹ تقریر کے بعد ایک دن بھی وزیرخزانہ ایوان میں نہیں آئے تو ہم کسی کو تجاویز دیں، ہم یہاں ایک دوسرے کی غلطیاں بتانے نہیں آتے، آج میڈیا پر بدترین سنسرشپ ہے، آج میڈیا ہاوسز، پارلیمنٹ، ملکی سیاست، ملکی معیشت کو کنٹرول کیا جا رہا ہے، آج ہمارا بجٹ آئی ایم ایف بنا کر دیتا ہے، پارلیمنٹ میں قانون سازی بیرونی اداروں کے اشاروں پر کی جاتی ہے تین سالوں میں جو قانون سازی ہوئی وہ غیر شرعی، غیر آئینی اور غیر قانونی تھی جسکو ہم ہر فورم پر چیلنج کریں گے،وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ ہم نے گزشتہ حکومتوں سے زیادہ روڈ بنائے ہیں آپ لوگ بلکسر سے میانوالی تک روڈ تو بنا نہیں سکے اور دعویٰ کرتے ہیں، حقائق وزیراعظم کے بیان کے برعکس ہیں، اس وقت تعلیم، ایچ ای سی بجٹ میں کٹوتی کی گئی ہے، اس وقت پشاور کی سب سے بڑی یونیورسٹی بینک سے قرضہ لیکر ملازمین کی تنخواہیں ادا کر رہی ہے، کہا جاتا ہے ملک میں تعلیم کے شعبے میں ایمرجنسی نافذ کی ہے مگر انکی اپنی ہی رپورٹس اس کی نفی کرتی ہیں، صرف پنجاب میں شرح خواندگی بڑی ہے اس کا بھی کریڈٹ مسلم لیگ نواز کو جاتا ہے، خیبر پختونخوا میں تو سرکاری ہسپتال ٹھیکے پر دے دئیے گے ہیں، اسلام آباد میں بھی ہسپتالوں کو ایم ٹی آئی کو ٹھیکے پر دے رہے ہیں اور اس کے پیچھے جو کردار ہیں وہ بھی سب کو معلوم ہیں، وہ ادارے کو ملک میں خسارے میں جا رہے تھے جب پی ٹی آئی اپوزیشن میں تھی تو کہتی تھی کہ ہم ان اداروں کو اٹھائیں گے مگر انہوں نے اقتدار میں آتے ہی اداروں سے ملازمین کو نکال دیا اور دعوی کیا کہ ہم نے خسارہ کم کر دیا ہے، بتایا جائے آٹا، چینی، ادوایات کی رپورٹس کہاں گئی؟ رنگ روڈ پر مال بنانے والے بیرون ملک فرار ہو گئے آپ کچھ نہیں کر سکے، افغانستان کشمیر کے مسئلے پر یہاں کریڈٹ لینے کی کوشش کی جاتی رہی، مسئلہ کشمیر کے سودے پر ہم معاملات حل نہیں کرنا چاہتے،حکومت پر واضع کرنا چاہتا ہوں کہ اگر حکومت آئی ایم ایف سے ریلیف لینے کی شرط پر امریکہ کو آڈے دیگی تو ہم اسکی اجازت نہیں دیں گے،انہوں نے کہا کہ دودھ، دہی، گھی اور خردونوش کی اشیا پر ٹکیس واپس لیا جائے، ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے اور مزدرو کی تنخواہ کم ازکم 25ہزار مقرر کی جائے۔حکومتی اتحادی جی ڈی اے نے زراعت کے لئے بجٹ ناکافی قرار دے دیا،جی ڈی اے کے غوث بخش خان مہر نے کہا کہ حکومت نے حالات کے مطابق بجٹ پیش کیا مگر زراعت کیلئے بجٹ ناکافی ہے، زراعت ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے تو پھر اس ریڑھ کی ہڈی کیلئے کیا رکھا ہے؟ وفاق کو زراعت سے متعلق ریسرچ سینٹر بنانے چاہیے، ملک میں بھارت کے مقابلے میں یوریا اور ڈی اے پی کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، وہ بھی امپورٹ کرتے ہیں اور ہم بھی مگر قیمتوں میں اتنا فرق کیوں ہے اگر بھارت سبسڈی دے رہا ہے تو ہم کیوں نے دے سکتے، زرعی قرضے بھی من پسند لوگوں کو دیئے جا رہے ہیں،ہمارے علاقے میں ظالمانہ لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، حکومت اسکا نوٹس لے۔مسلم لیگ ن کی عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ اسد عمر بہت باتیں کر رہے تھے کہ مسلم لیگ ن کے دور میں برآمدات نہیں بڑھیں مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ہمارے دور میں 12 سے 13 گھنٹے لوڈ شیڈنگ، دہشتگردی تھی، اسد عمر یہ بتائیں کہ اب تو یہ دونوں نہیں ہیں تو پھر کیوں برآمدات نہیں بڑھیں،انہوں نے کہا کہ حکومت نے بجٹ اعدادوشمار غلط دئیے، آئندہ سال 1000 ارب کا ریونیو شارٹ فال ہو گا، جاری اخراجات بھی کم ظاہر کیے گئے ہیں جو کہ حقیقت میں بہت زیادہ ہیں، حکومت نے بجٹ میں لمبے لمبے وعدے اور خواب دکھائے ہیں لگتا ہے الیکشن 2023 میں نہیں اسی سال ہے،آئی ایم ایف سے جو رقم ابھی ہمیں ملی ہی نہیں اسکو بھی ظاہر کر دیا گیا ہے، جب کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں ڈیڈلاک ہے، آئی ایم ایف سے وعدہ کیا گیا ہے کہ 30 فیصد بجلی کی قیمت بڑھے گی مگر وزیراعظم تو کہہ رہے ہیں کہ بجلی کی قیمت نہیں بڑھے گی، حکومت جواب دے وہ کرنا کیا چاہتی ہے، بجٹ میں بڑے بڑے بروکرز کو کھلی چھٹی دیدی، آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جس سے مہنگائی بڑھے گی اور ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی قدر کم ہو گی،قوم کیساتھ جھوٹ بولا جا رہا ہے میں چیلنج کرتی ہوں وزیر خزانہ کو کہ تقریریں چھوڑیں اور ہمارے ساتھ مناظرہ کرلیں، میں یہ بھی قوم کو بتانا چاہتی ہوں کے 610 ارب کا پیٹرول بم گرنے والا ہے تیاری کرلیں۔(وخ،رڈ)
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں