مزدور کی کم از کم تنخواہ 25ہزار اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20فیصد اضافہ، اپوزیشن ڈٹ گئی

اسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بجٹ اجلاس پر امن طور پر چلانے کے لئے معاہد ہ طے پانے کے بعد آئندہ مالی سال کے بجٹ پر عام بحث کا دوبارہ آ غاز کرادیا گیا، حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں کئی گئی ایک ہی دن میں ریکارڈ قانون سازی پر نظر ثانی اور قانونی بحث کے لئے سپیکر نے حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کرلیا جبکہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بجٹ پر بحث کے چوتھے روز بالآخر اپنی طویل دورانیہ کی تقریر مکمل کر لی ، حکومتی بینچوں سے ایک بار پھر شور شرابہ کر نے کی کوشش کی گئی تاہم ا یسا کرنے والے ارکان کو سپیکر نے روک دیا جبکہ شہباز شریف نے کہاکہ وفاقی بجٹ سے مہنگائی کا اور بڑا طوفان آئے گا اور ہم بجٹ کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنیں گے، اس کومنظور نہیں ہونے دیں گے کیونکہ یہ غریب کے ساتھ مذاق ہے ،اشیاء خوردونوش پر نئے ٹیکس ختم کئے جائیں، بچوں کے دودھ پر ڈیوٹی ختم کی جائے، سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 20فیصد کم از کم اضافہ کیا جائے، مزدور کی تنخواہ 25ہزار کی جائے، ایل این جی پر ٹیکس ختم کیا جائے، بجلی اور گیس کے بلوں کو ہمارے دور کی سطح پر لایا جائے، کسانوں کے لئے یوریا کی قیمتوں کو2018کی سطح پر لایا جائے، مشینری پر سیلز ٹیکس ختم کیا جائے، سی پیک کے منصوبوں کو فی الفور فعال کیا جائے، ریلوے کا ایم ایل ون پر کام جلد شروع کیا جائے، ،مہنگائی کی سونامی غریبوں کو بہا کر لے گئی ہے، دو کروڑ لوگ تین سال میں غربت کی لکیر سے نیچے گئے،جعلی بجٹوں کے نتیجہ میں مزید پچاس لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں، ماڈرن ہائوسنگ سکیموںکو حکومت اپنے 50لاکھ گھروں کی وعدے میں شامل کر کے غریبوں کے ساتھ دھوکہ کر رہی ہے، گزشتہ تین سالوں میں حکومت نے کوئی میگا پراجیکٹ نہیں دیا بلکہ نواز شریف دورکے منصوبوں پر اپنی تختیاں لگا رہے ہیں،تین سالوں میں صوبوں کے درمیان جتنی دوریاں ، بداعتمادی اور تلخیاں پیدا ہو ئی ہیں اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ،تین سال میں اپوزیشن سے احتساب کے نام پر انتقام لیا جاتا رہا، حکومت نے ہر پاکستانی پونے دو لاکھ کامقروض بنا دیاہے، اپنے آپ کو پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے کشکول توڑنا ہو گا،حکومت نے بر آمدات نہیں بڑھائیں ، 10ہزار ارب سے زیادہ مالیاتی خسارہ کیا جونواز شریف کے تین ادواروں میں مالیاتی خسارہ سے ان تینوں کا خسارہ زیادہ ہے،ہمارے دور میں کاٹن کی پیداوارایک کروڑ گانٹھیں پیدا ہوئیں جو ان کے دورمیں کم ہو کر 62لاکھ گانٹھوں تک رہ گئیں ،پنجاب میں رشوت کا بازار گرم ہے، میں نے لاکھوں ملازمین بھرتی کئے، تین سال میں میرٹ اور شفافیت کا جو قتل ہوا اس کی نظیر نہیں ملتی،وزیراعظم میرٹ کے دلدادہ تھے لیکن، بھرتیوں کے بدلے تجوریاں بھری جا رہی ہیں، آج دفاعی اخراجات اپنے ریونیوسے صرف 40فیصد پورے ہوتے ہیں باقی قرض لیا جاتا ہے،ہم نے اس وقت بجلی کے منصوبے لگائے جب ایک ایک یونٹ کی حیثیت سونے کے برابر تھی،بجلی کے سستے منصوبے نیپرا کے ٹیرف سے آ دھے ٹیرف پر لگائے، 9سال میں ہمیں موقع ملا ہوتا تو خیبرپختونخوا کو پنجاب سے آگے لے جاتے،پاکستان میں میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا کالا قانون لایا جا رہا ہے اس کو ختم کیا جائے۔جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلاس تقریباًاڑھائی گھنٹہ کی تاخیر سے سپیکر اسد قیصر کی صدارت میں شروع ہوا،سپیکر نے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو نئے مالی سال کے بجٹ پر بحث کے حوالے سے تقریر مکمل کرنے کے لئے فلور دیا، شہباز شریف نے تقریر شروع اور گزشتہ دنوں کے واقعات کا تذکرہ شروع کیا تو وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور نے اعتراض کیا اور کہاکہ صرف بجٹ پر بات کریں، اس دوران حکومتی بینچوں سے شور شرابا کرنے کی کوشش کی گئی تو سپیکر نے سختی سے روک دیا اور پی ٹی آئی کے چیف وہپ عامر ڈوگر نے بھی ارکان کو شور شرابا کرنے سے منع کیا، اس دوران حکومتی بنچوں سے سیٹیا ں بھی بجائی گئیں، قائد حزب اختلاف میاںشہباز شریف نے کہا کہ ایوان میں تمام رکن پاکستان کے عوام کی نمائندگی، ان کے مسائل ، مشکلات کے حل اور پاکستان کی خوش حالی کے لئے بحث، قانون سازی اور تقدیر کے فیصلوں کیلئے ہیں، گزشتہ پانچ دن سے جو بدقسمتی سے ہوا، ہر دن کا خرچہ کروڑوں کا ہے جو غریب عوام کی پونجی سے آتا ہے، ہر لمحہ اور پائی پائی عوام اور ملک کی امانت ہے، اگر ان وسائل کو امانت جان کر اپنا فرض ادا نہیں کرتے تو ہم عوام کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے ہیں، ہم لوگوں کے دکھوں پر مر مٹنے اور پاکستان کو کھویا ہوا مقام دلانے اور مزدور اور غریبوں کی بات کرنے کیلئے آئے ہیں، عوام کے مسائل کے حل کیلئے آئے ہیں، یہاں پر ہمیں مثبت انداز میں بات کریں، میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوںکہ اگر ہماری بات سنی جائے گی تو حکومتی ارکان کی بات بھی سنیں گے، پارلیمنٹ میں ہونے والی دھینگا مشتی سے ساری دنیا میں غلط پیغام گیا اور ہم عوام کی نظروں میں ایک مذاق بنے ہیں، انہوں نے کہاکہ حالیہ دنوں میں قانون سازی ہوئی ہے وہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہو ئی، اس میں خامیاں ہیں، وہ بلڈوز ہوگی، سینیٹ میں اپوزیشن نے اس قانون سازی کو بلاک کیا، اس معاملہ پر فوراً کمیٹی بنائیں۔ سپیکر نے کہا کہ اس معاملہ پر ایک مشترکہ کمیٹی بنے گی اور قانونی بحث ہو گی اور فیصلہ کیا جائے گا، اس پر کمیٹی بناتے ہیں، شہباز شریف نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ غریب عوام کی جیب خالی ہے تو یہ بجٹ جعلی ہے، گزشتہ تین سال میں چوتھا بجٹ پیش ہوا ہے، ٹیکس کی بھرمار کی گئی، غریب کی روٹی آدھی ہو چکی ہے،لوگوں بچوں کی فیسیں ادا نہیں کر سکتے، تین سال کے نتیجے میں پاکستان میں بدحالی، بھوک، افلاس اور مایوسی آئی، بجٹ سے مہنگائی کا سیلاب آئے گا، وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے ہر صفحہ میں مہنگائی، معاشی بدحالی لکھی ہوئی تھی، ہم نے 5.8فیصد پر جی ڈی پی چھوڑی، کووڈ 19سے قبل حکومت کی شرح نمو منفی 0.5آئی یہ پاکستان کی تاریخ میں 1952کے بعد کم ترین شرح نمو تھی، دو کروڑ لوگ تین سال میں غربت کی لکیر سے نیچے گہری غار میں دھکیلے گئے، غریب گھرانے کا بہت بڑا خرچ دال روٹی پر چلا جاتا ہے، لوگوں سے روزگار چھین چکا ہے،ادویات کے لئے پیسہ نہیں ہیں،غریبوں ے جذبات تک ہم نہیں پہنچ سکتے، سرکاری ملازمین کی آمدن میں کمی ہوئی، ان کی بڑی تعداد خطہ غربت سے نیچے گئے ہیں، 66صفحوں کی بجٹ تقریر میں کروڑوں نوکریاں کہاں ہیں، 50لاکھ گھر کہاں ہیں، جعلی بجٹوں کے نتیجہ میں مزید پچاس لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں، ماڈرن ہائوسنگ سکیموں کو ان گھروں میں شامل کرایا جا رہا ہے جو غریب آدمیوں کیلئے پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا، اس سے زیادہ غریبوں کے ساتھ کیا بڑا دھوکہ ہو سکتا ہے، نواز شریف کے منصوبوں پر اپنی تختیاں لگا رہے ہیں اور فیتے کاٹ رہے ہیں، بے روزگاری کی شرح پاکستان میں بلند ترین سطح پر ہے جو 15فیصد ہے، ریاست مدینہ میں کوئی بھوکا اور آسمان تلے کیا سو سکتا ہے، مہنگائی کی شرح 16فیصد پر ہے، اس سے تو پرانا پاکستان بہتر تھا، حکومتیں پاکستان کو کوشش کر کے آگے لے گئیں، تین سالوں میں صوبوں کے درمیان دوریاں اور بداعتمادی اور تلخیاں آج پیدا ہو ئی ہیں اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، بدترین صورتحال میں کوئی ان کو سنبھالنے والا نہیں ہے، خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر پنجاب ترقی کرتا ہے اور باقی اکائیاں ترقی نہیں کرتیں تو پھر وہ پاکستان کی ترقی نہیں ہے ،تین سالوں میں مہنگائی 30فیصد بڑھ چکی ہے، تین سال میں اپوزیشن سے احتساب کے نام پر انتقام لیا جاتا رہا، پہلی قطاروں سے ارکان سالوں تک قید کاٹ کر آئے ہیں، خورشید شاہ اور خواجہ آصف چیئرمین ہیں، احتساب ہونا چاہیے جس میں شفافیت ہونی چاہیے، کووڈ پر ہم نے کہا کہ یہ قومی ایمرجنسی ہے، ہم سب کردار ادا کریں گے، وزیراعظم کا کام قوم کو اکٹھا کرنا تھا لیکن انہوں نے نہیں کیا، 1200ارب روپے کا کرونا پیکج آیا، بدترین غفلت اور نا اہلی کی نظر ہو گیا، چین نے ویکسین تحفہ کے طور پر دی، اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے بجائے آپ نے اتنے وقت میں کیا گیا، نیب نیازی گٹھ جوڑ سے اپوزیشن کو کچلنا تھا، ویکسین کیلئے وسال کیوں نہیں جھونکے گئے، تمام پابندیوں کے باوجود اگر ملک پاکستان ایٹمی قوت بن گیا تو کرونا سے نمٹنے میں کیا مسئلہ تھا، تین سال میں ہر پاکستانی پونے دو لاکھ کا قرضہ دار ہو چکا ہے،کیا کوئی قوم اس طرح زندہ مر سکتی ہے، ایک ہاتھ میں ایٹمی قوت ہو اور دوسرے ہاتھ میں کشکول ہو، ہمیں وسائل پیدا کرنے ہوں گے، اپنے آپ کو پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے کشکول توڑنا ہو گا، ہم پر الزام تھا کہ انہوں نے برآمدات نہیں بڑھائیں، انہوں نے کیا کیا، انہوں نے ہماری برآمدات جہاں چھوڑی تھی اس سے آگے نہیں بڑھائی، روپیہ ڈالر کے مقابلہ میں 35فیصد کم کیا، اس سے مہنگائی آئی، یہ شومئی قسمت ہے، اتنی مہنگائی کرنے کے باوجود برآمدات نہیں بڑھا سکے، 10ہزار ارب سے زیادہ مالیاتی خسارہ کیا، نواز شریف کے تین ادواروں میں مالیاتی خسارہ سے ان تینوں کا خسارہ زیادہ ہے، جھوٹ کو ہم سچ نہیں کہہ سکتے ، سٹے بازی سے کھربوں کا نقصان پہنچایا، تین سال میں کوئی بڑا ہسپتال یا یونیورسٹی بنائی، کیا کوئی میگا پراجیکٹ بنایا، ماسوائے تختیاں لگانے اور فیتے کاٹنے کے کیا کیا، ان کا دامن ہر مال سے عمل سے خالی ہے، ہم نیا پاکستان نہیں بنا سکے، جس کو مال بنانے کا شوق ہو وہ عمل کیسے کر سکتا ہے، حکومت کا اصل کام لنگر خانے بنانا نہیں بلکہ لوگوں کو پائوں پر کھڑا کرنا ہے، اگر فصلوں کی ریکارڈ پیداوا ر ہوئیں یہ وزیر خزانہ نے ایک سانس میں کہا اور دوسری سانس میں کہا کہ یہ خوراک کا درآمد کنندہ بن گیا، اگر ریکارڈ پیداوار ہوئی تو رمضان میں لوگوں کو لمبی قطاروں میں ایک کلو آٹا اور چینی خریدنے کیلئے کیوں لگایا گیا، آٹا 35روپے سے 85روپے میں اور چینی 52روپے سے 100روپے اوپر کیسے گئی، یہ قوم کو بتانا ہو گا، حکومت نے گیارہ لاکھ ٹن چینی وزیراعظم کی منظوری سے برآمد ہوئی، پھر اس پر اربوں روپے کی برآمد کرنے کیلئے سبسڈی دی، دوسری طرف روپیہ تیزی سے گرایا گیا، یہ ایکسپورٹر کا بونینزا تھا جو ان کی جیبوں میں گیا، کسی نے پوچھا، کسی کو اس معاملہ میں کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا گیا، اس کے بعد چینی امپورٹ کی گئی، اربوں روپے خرچ کیا، کیا ایسا کوئی جواز تھا، یہ کھربوں کا ڈاکہ تھا، ہم ویکسین خرید نہ سکے، اس رقم سے پورے پاکستان میں لوگوں کو ویکسین لگ سکتی تھی، میں نے ڈینگی کو کامیاب طریقہ سے کنٹرول کیا تھا، جب رپورٹ ملی کہ 25ہزار لوگ ڈینگی سے مر سکتے ہیں تو ساری رات نیند نہیں آئی، لیکن ایک موت بھی ڈینگی سے نہیں ہوئی، ہم نے کام کیا، ہمارے دور میں کاٹن کی پیداوارایک کروڑ گانٹھیں پیدا ہوئیں جو ان کے دورمیں کم ہو کر 62لاکھ گانٹھوں تک رہ گئیں، تقریروں سے قومیں نہیں سنتیں، بجٹ سے مہنگائی کا اور بڑا طوفان آئے گا، بجٹ کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنیں گے، منظور نہیں ہونے دیں گے کیونکہ یہ غریب کے ساتھ مذاق ہے، آئو ضد اور انا کو ایک طرف رکھیں اور ملک اور قوم کیلئے کام کریں، تین سال میں انہوں نے 800ارب روپے ٹیکس محصولات میں اضافہ کیا اور ایک سال میں 1200ارب روپے کیسے جمع کریں گے، ہم نے آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کیا اور محصولات میں دو گنا کیا، معیشت کا حجم گر کر 296ارب تک گیا، ترقی جاری رہتی تو 370ارب ڈالر تک جی ڈی پی پہنچ جاتی، نقل کیلئے عقل چاہیے ، میں نے میثاق معیشت کی پیشکش کی تو حقارت سے اس کو ٹالا گیا،ڈیری مصنوعات اور خام تیل پر 12فیصد ٹیکس لگایا جا رہا ہے، مہنگائی اس سے بڑھے گی، 120ارب کا اضافی انکم ٹیکس لگائے جا رہے ہیں، آئی ایم ایف کی بجٹ پر شرائط پر ایوان کو اعتماد میں لینا چاہیے، پاکستان کیلئے اگر کسی کے گھٹنوں کو بھی ہاتھ لگانا پڑے تو لگائوں گا، انہوں نے کہا تھا 300ارب ڈالر لوٹا ہوا پیسہ واپس لائیں گے، پنجاب میں رشوت کا بازار گرم ہے،میں نے پٹواری کلچر ختم کیا تھا، اب دوبارہ وہی کلچر چل رہا ہے، تین سالوں میں میرٹ پر کتنی تقرریاں ہوئیں، کتنے چیف سیکرٹری اور آئی جیز بدل گئے، وزیراعظم میرٹ کے دلدادہ تھے، ہر تیسرے ماہ افسران کو بدلا جاتا ہے، بھرتیوں کے بدلے تجوریاں بھری جا رہی ہیں، 9,10سالوں میں لاکھوں ملازمین بھرتی کئے، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ان بھرتیوں میں ڈنڈی ماری ہے تو میرا گریبان حاضر ہے، تین سال میں میرٹ اور شفافیت کا جو قتل ہوا اس کی نظیر نہیں ملتی، مہنگائی کی سونامی غریبوں کو بہا کر لے گئی ہے، پی ٹی آئی کے دھرنوں نے معیشت کا دھڑن تختہ کیا، چین کے صدر کا دورہ روکا گیا، عمران خان کی منت کی گئی کہ تین دن کیلئے ڈی چوک خالی کریں چین کا صدر دورہ کرے، یہ سب سے زیادہ دلخراش واقعہ تھا، نواز شریف دور میں چار سال کے ترقیاتی کام تاریخ کا حصہ ہیں، دہشت گردی کا ہم نے خاتمہ کیا، 2015میں پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں آیا، انہوں نے 13ہزار ارب قرضہ لیا، 2018میں 100ارب روپے کا ترقیاتی پروگرام پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام تھا، ہمارے دور میں محصولات سے صوبوں اور سود کے اخراجات ادا کرنے کے بعد دفاع کے اخراجات پورے ہوتے تھے، آج دفاعی اخراجات صرف 40فیصد پورے ہوتے ہیں باقی قرض لیا جاتا ہے، بجلی کے بلوں کی ریکوری ہمارے دور میں 93فیصد تھی آج 89فیصد پر آ گئی ہے، انہوں نے 60فیصد بجلی کی قیمتیں بڑھائیں، ہم نے بجلی بنائی، انہوں نے بجلی گرائی، پی ٹی آئی نے سی پیک کے خلاف پروپیگنڈا کیا، بدنام کیا اور بی بی سی کے پروگرام میں پھر اسد عمرنے سچ بولا، ہم نے اس وقت بجلی کے منصوبے لگائے جب ایک ایک یونٹ کی حیثیت سونے کے برابر تھی، ہماری حکومت نے 5000میگاواٹ کے ایل این جی کے منصوبے مکمل کئے، یہ دنیا کے سستے ترین پلانٹ تھے کم ترین وقت میں لگے، ان کا ٹیرف آج کی نسبت آدھا تھا، ان منصوبوں کا ٹیرف4لاکھ68ہزار ڈالر تھا، ، نیپرا کا اس وقت ٹیرف ساڑھے آٹھ لاکھ ڈالر تھا، حکومت نے دو سال تک ان منصوبوں کی گیس روکی اور بجلی کی خریداری روکی تا کہ اپنے پیاروں کو روکیں، حکومت نے بجلی کا بھکی پاور پلانٹس تاخیر کا شکار کیا اور 32ارب کا نقصان کیا، منصوبے کے فنانشل کلوز 2017میں ہوا لیکن آج اخبار میں اشتہار ہے کہ پنجاب بینک نے فنانشل کلوز منظور کرلیا، یہ بڑا دھوکہ ہے، کیڑے مار ادویات کی قیمتیں 100فیصد تک بڑھ گئی ہیں، کھادوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، ہم نے کھاد پر اربوں روپے کی سبسڈی دی، پی ٹی آئی نے 9 سال میں خیبرپختونخوا میں کیا کیا، 9سال میں ہمیں موقع ملا ہوتا تو خیبرپختونخوا سے آگے لے جاتے، پاکستان میں میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا کالا قانون لایا جا رہا ہے، اس کو ختم کیا جائے، اشیاء خوردونوش پر نئے ٹیکس ختم کئے جائیں، بچوں کے دودھ پر ڈیوٹی ختم کی جائے، سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 20فیصد کم از کم اضافہ کیا جائے، مزدور کی تنخواہ 25ہزار کی جائے، ایل این جی پر ٹیکس ختم کیا جائے، بجلی اور گیس کے بلوں کو ہمارے دور کی سطح پر لایا جائے، کسانوں کے لئے یوریا کی قیمتوں کو2018کی سطح پر لایا جائے، مشینری پر سیلز ٹیکس ختم کیا جائے، سی پیک کے منصوبوں کو فی الفور فعال کیا جائے، ریلوے کا ایم ایل ون پر کام جلد شروع کیا جائے، آئندہ بھی موقع ملا تو قوم کی خدمت جاری رکھیں گے، پورے پاکستان میں وظائف اور لیپ ٹاپ تقسیم کریں گے، لوکل باڈیز کے معاملہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل کیا جائے، کے پی کے کا بلدیاتی ماڈل کیا گیا، پنجاب میں بلدیاتی نظام معطل کر دیا ہے، حکومت ایوان کو سنجیدگی سے لیتی ہے تو ہم بھی سنجیدہ طریقے سے ان کو سنیں گے۔ اجلاس کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بجٹ اجلاس کو پرامن انداز میں چلانے کے لئے طے پائے جانے والے معاہدے کو سپیکر اسد قیصر نے ایوان میں پڑھ کر سنایا اور کہا کہ معاہدے کے تحت حکومت نے 10جون کو جو قوانین (الیکشن ترامیمی بل،کلبھوشن یادیو سے متعلق بل سمیت30بل )ایوان سے منظور کروائے ان پر اپوزیشن کا موقف ہے کہ وہ قانونی تقاضے پورے کئے بغیر عجلت میں منظور کروائے گئے،جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ قانون سازی قانون اور آئینی تقاضے پورے کر کہ کی گئی ہے۔حکومت اور اپوزیشن میں طے ہوا ہے کہ ان بلوں پر ایک کمیٹی بنا کر انکا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا،وہ تمام بل اب سینیٹ میں پیش ہو چکے ہیں اور سینیٹ کی قانون و انصاف کمیٹی کو ارسال ہو چکے ہیں اس لئے قائم کی گئی کمیٹی اس کے قانونی طریقہ کار کا جائزہ بھی لے گی،ان بلوں کی وجہ سے اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کیخلاف عد م اعتمادکی تحریک پیش کی تھی اس لئے کمیٹی کے قیام کے بعد اپوزیشن ڈپٹی سپیکر کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لے گی۔اس موقع لیگی رہنما رانا ثناء اللہ نے معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ بلکل اسی طرح طے پایا تھا۔اس موقع پر سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ کمیٹی 12ارکان پر مشتمل ہو گی جن میں 6ارکان اپوزیشن اور6حکومت کے شامل ہونگے۔پیپلزپارٹی رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ہمیں قانون سازی پر اعتراض تھا ہمیں اس دن سنا نہیں گیا تھا جس کے جواب میں ڈپٹی سپیکر کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی،قانون سازی پر ہمارے سنگین خدشات تھے،امید کرتے ہیں کہ آئندہ اسطرح عجلت میں قانون سازی نہیں کی جائے گی۔سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ معاہدے میں یہ بھی طے ہوا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے لیڈران کی تقریر پر غیر ضروری مداخلت نہیں ہو گی،قائد ایوان،اپوزیشن لیڈر،پارلیمانی لیڈرز سمیت تمام ارکان کا ذاتی احترام ملحوظ خاطر رکھا جائے گا اورذاتی حملے کرنے،رولز کا احترام نہ کرنے،گالم گلوچ پر سخت تادیبی کارروائی کی جائیگی،غیر پارلیمانی طرز عمل اور الفاظ کی اجازت نہ ہو گی اور اگر کسی رکن نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی تو اسکے خلاف کارروائی ہو گی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں