اسلام آباد(آئی این پی)وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے کہا ہے کہ معیشت کی بہتری کیلئے وزیراعظم عمران خان نے سیاسی طور پر مشکل ترین فیصلے کئے کیونکہ وہ لیڈر ہے سیاستدان نہیں، ان کو پاکستان کی بہتری چاہیے تھی اپنی سیاسی شہرت نہیں، ایک دھائی گزرنے کے بعدبیرونی خسارہ نہیں سرپلس ہوگیا، وہ مافیا جو حکومتوں کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتے تھے عمران خان نے اس سے ٹکر لی اور کسان کو حق دلایا، عمران خان اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لیے سیاست کرتا ہے،، اپوزیشن زور لگا رہی ہے کہ بیرون ملک پاکستا نیوں سے پیسہ تو لیتے رہو لیکن انہیں ووٹ نہیں ڈالنے دو،کورونا کے باوجود پاکستان کی لارج اسکیل مینو فیکچرنگ میں اضافہ ہوا، کراچی کے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے، معاشی ترقی کی شرح میں 4 فیصد بڑھوتری ہوئی، کورونا وباء کے دوران حکومت پاکستان نے جو کام کئے اس کی گواہی پوری قوم دیتی ہے۔وہ جمعرات کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر پر جواب دے رہے تھے ۔وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کا ہر نکتے کا جواب دیا جا سکتا ہے مگر میں چند باتوں کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں ،ان کی بات مجھے بہت پسند آئی کہ حکومت کا کام ہوتا ہے کہ بیوائوں،یتیموں اور غریبوں کا خیال رکھے،مجھے فخر ہے کہ میں اس جماعت میں سے ہوں جس کے لیڈر نے اپنی پوری زندگی میں بیوائوں،یتیموں اور غریبوں کا خیال رکھا ہے کہ شائد کسی پاکستانی نے نہ کی ہو،یہ سبق ہمارے دین نے ہمیں سکھایا،اپوزیشن لیڈر کاش لنگر خانوں اور پناہ گاہوں میں رہنے والے لوگوں کے پاس جاکر بیٹھیں تو انہیں اسکا احساس ہو،وزیر اعظم ہائوس اور سیکرٹریٹ کے 108کروڑ روپے کی سالانہ کمی کر کے فلاحی کام کئے جا رہے ہیں، اپوزیشن لیڈر نے اپنی تقریر میں ڈینگی کا بھی ذکر کیااور ڈینگی کا کورونا کے ساتھ موازنہ کیا،شہباز شریف کو ایوان میں کھڑے ہو کر بیس منٹ صرف یہ بتانا پڑا کہ ڈینگی کی وباء کے دوران انہوں نے کیا کیا تھا، جبکہ کورونا وباء کے دوران حکومت پاکستان نے جو کام کئے اس کی گواہی پوری قوم دیتی ہے، دنیا کہہ رہی ہے کہ اگر امریکہ نے کورونا کا مقابلہ پاکستان کی طرح کیا ہوتا تو کھربوں ڈالر بچا سکتا تھا، بل گیٹس کہتا ہے کہ کورونا سے کیسے لڑنا ہے پاکستان سے سیکھنا چاہیے، پوری دنیا کورونا کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی جبکہ پاکستان کامیاب رہا، عالمی ادارہ صحت کہہ رہا ہے کہ دنیا میں پانچ ممالک ہیں جن سے سیکھا جا سکتا ہے کہ کورونا کا مقابلہ کیسے کرنا ہے اور ان پانچ ممالک میں سے ایک پاکستان ہے، یہ ہم نے نہیں کیا بلکہ پوری پاکستانی قوم نے کر کے دکھایا ہے،این سی او سی کی نے شبانہ روز محنت پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں، کووڈ کی وجہ سے پاکستان اور بھارت میں اموات ہوئی، اگر بھارت میں فی کس وہی اموات ہوتی جو پاکستان میں ہوئی تو بھارت میں 2 لاکھ 35 ہزار اموات کم ہوئی ہوتی، وبا کے دوران 9 کروڑ پاکستانیوں کو 2 سو ارب روپے کے قریب کی امداد پہنچائی گئی۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ مٹھی بھر لوگ اس ملک کی دولت کو نچوڑ کر اپنے لئے اربوں کی جائیداد بنا رہے ہیں اور کروڑوں پاکستانی اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں، یہ میرے دل کی بات تھی جو اپوزیشن لیڈر نے کی،جب قوم پر حکمرانی کرنے والے لندن ، پیرس میں اپنی جائیدادوں کے بارے میں جواب دینے سے قاصر ہوں تو پاکستانی قوم کا حق بنتا ہے کہ وہ سوال پوچھیں کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا۔ اسد عمر نے کہا کہ یہ سوال پوچھنے سے یہ کہنا کہ جمہوریت خطرے میں پڑ گئی غلط ہے،اس سوال کا جواب نیب نیازی گٹھ جوڑ کے نعرے لگانا نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاق میں تین دفعہ اور پنجاب میں چار دفعہ حکومت ہونے کے باوجود کاش وہ ایک ایسا ہسپتال بنا لیتے کہ جہاں میاں نواز شریف کا علاج ہو سکتا،خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ نون کی حکومت رہ چکی ہے، کے پی کی عوام آزاد فیصلے کرنے والے ہیں، اگر ان کو کسی کی کارکردگی پسند نہیں آتی تو اسے تبدیل کر دیتے ہیں، اے این پی، جے یو آئی (ف) ان سب کی کے پی کے میں حکومت رہی ہے مگر یہ ڈلیور نہیں کر سکے جس پر عوام نے انہیں مسترد کر دیا اور ہمیں موقع دیا، خیبرپختونخوا کی حکومت نے ایک بار نہیں دو بار موقع دیا، میری ان سے درخواست ہے کہ وہاں کے لوگوں کے مینڈیٹ کا احترام کریں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہم نے بجلی کے سستے پاور پلانٹ لگائے، اگر یہ اتنے ہی سستے پلانٹ تھے تو ہمیں قانون میں ترامیم کیوں کرنا پڑی، قانون کے مطابق جو سب سے سستے پاور پلانٹ ہوتے ہیں سب سے پہلے ان سے بجلی بنائی جاتی ہے مگر یہاں قانون میں ترمیم کی گئی کہ ایل این جی کے پاور پلانٹس کو ہر صورت میں چلایا جائے گا، بے شک جتنی مرضی بجلی مہنگی پیدا کریں، اگر اتنے سستے پلانٹ لگائے تھے تو پھر قانون میں ترمیم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، میں اپوزیشن لیڈر کو بتانا چاہتا ہوں کہ اب ہم نے وہ قانون بدل دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جس وقت ہماری حکومت آئی تو ان کی حکومت کے آخری تین ماہ میں بیرونی خسارے کی ماہانہ اوسط 2ارب ڈالر تھی، پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 10.2ارب ڈالر کے تھے، انہوں نے 6.7ارب ڈالر کے قلیل المدتی قرضے لئے ہوئے تھے اور ہمارے پاس نیٹ زرمبادلہ کے ذخائر 3.5ارب ڈالر تھے اور ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی ماہانہ درآمدات ہو رہی تھیں، ہمارے پاس صرف دو ہفتے کے زر مبادلہ کے ذخائر بچے پڑے تھے،اپوزیشن ہم پر اعتراض کرتی ہے کہ ہم فوری طور پر آئی ایم ایف کے پاس کیوں نہیں گئے، مگر یہ نہیں بتاتے کہ آپ دودھ اور شہد کی نہریں چھوڑ کر گئے تھے تو پھر ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کا مشورہ کیوں دے رہے تھے، وزیراعظم عمران خان نے سیاسی طور پر مشکل ترین فیصلے کئے، وہ اس لئے کئے کہ وہ لیڈر ہیں، سیاستدان نہیں، ان کو پاکستان کی بہتری چاہیے تھی اپنی سیاسی شہرت نہیں، ان مشکل فیصلوں کا آج اثر یہ ہے کہ ہم نے اپنے پہلے آٹھ ماہ میں اس بیرونی خسارے کو آدھا کر دیا، الحمداللہ آج ایک دھائی گزرنے کے بعدبیرونی خسارہ نہیں سرپلس ہوگیا، ہم نے پہلے دن سے سخت فیصلے کئے اور بہتری کر کے دکھائی۔انہوں نے کہا کہ 9 کروڑ پاکستانیوں کو 2 سو ارب روپے کے قریب کرونا میں امداد پہنچائی گئی، بجلی کے بلوں میں کرونا میں ریلیف دیا گیا، 435 ارب روپے کے انٹرسٹ فری قرضے دیے گئے،سٹیٹ بنک کے روزگار سکیم کے تحت 238 ارب دیے گئے،بنکوں کے ذریعے گھروں کیلئے قرضے دیے گئے، کرونا کے باوجود لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں 12.8 فیصد اضافہ ہوا، بجلی کی کھپت جولائی سے مارچ تک 9 فیصد اضافہ ہوا،ایکسپورٹ مسلم لیگ ن نے جتنی زیادہ کی اس سے کم 2018 میں چھوڑ کر گئے ،یہ سب کچھ کر گئے تھے مگر اس کے بعد جو یہ درس دیتے ہیں تو دکھ ہوتا ہے، اس سال اب تک ہماری ایکسپورٹ میں 14 فیصد اضافہ ہوا، جولائی سے مئی تک ترسیلات زر میں 29.4 فیصد اضافہ ہوا ہے،اس سال پہلے دس ماہ میں آئی ٹی ایکسپورٹ میں 46 فیصد اضافہ ایک سال میں ہوا، پاکستان کی معیشت میں 4 فیصد ایسا اضافہ ہوا کہ اپوزیشن دنگ رہ گئی کہ یہ اضافہ کیسے ہوا؟یہ وہ وعدے ہیں جو عمران خان نے کیے تھے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن زور لگا رہی ہے کہ ان بیرون ملک پاکستانیوں سے پیسہ تو لیتے رہو انہیں ووٹ نہ ڈالنے دو، کسان کی محنت سے پاکستان کی معیشت چلتی ہے،ملک میں تین بڑے پانی کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے،متعدد ڈیموں کے نئے منصوبے اس سال کے پی ایس ڈی پی میں رکھے، کینالز کے منصوبے ہیں یہ پانی ہم نے کسان تک پہنچانا ہے۔ان کا کہناتھا کہ وہ مافیا جو حکومتوں کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتے تھے عمران خان نے اس سے ٹکر لی اور کسان کو حق دلایا، کسان کو اس کی محنت کا جائز حق ملنا چاہیئے۔ اس ملک میں زراعت ریڑھ کی ہڈی ہے، پاکستان کی تاریخ میں پانی کے تین بڑے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، متعدد ڈیموں کے نئے منصوبے اس سال کے پی ایس ڈی پی میں رکھے ہیں۔ کینالز کے منصوبے ہیں یہ پانی ہم نے کسان تک پہنچانا ہے، 2013 میں ن لیگ کی حکومت نے فی 40 کلو گرام گندم کی قیمت 1200 روپے متعین کی، پانچ سال میں یہ 12 سو سے 13 سو تک پہنچے، تحریک انصاف کی حکومت میں یہ گندم کی قیمت 18 سو کر دی گئی، تین سال میں 5 سو اضافہ ہوا۔ اسی طرح گنے کی قیمت 225 سے ڈھائی سو اس سال ملی۔اسد عمرکا کہنا تھا کہ کراچی سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر ہے، اور اسی کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے، شہر کی گلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ عمران خان نے ایک سا ل میں چار مربوط ترقیاتی پیکجز کا حکم دیا، یہ چار پیکج 1 ہزار 739 ارب کے ہیں، جنوبی بلوچستان اور گلگت پر ہم نے پیکج دیا۔ آزاد کشمیر میں آج بھی ن لیگ اور سندھ میں پی پی کی حکومت ہے، ضم اضلا ع کے لیے 24 ارب سے ایلوکیشن بڑھا کر ہم 54 ارب پر لے گئے، ان کو ہم سڑکیں بنا کر دیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم مفت کی ویکسین دے رہے ہیں، پنجاب کی نسبت سندھ میں ہم نے زیادہ ویکسین فراہم کی۔ وفاق اب تک 46 ارب روپے کی ویکسین خرید چکا ہے، لیکن اپوزیشن لیڈر کہہ کر گئے کہ ابھی تک ویکسین نہیں خریدی، شاید اپوزیشن لیڈر اپنی کشمیر کی حکومت کو کہنا چاہ رہے ہوں، ن لیگ بتائے کہ کشمیر کی عوام کے لیے ان کی حکومت نے کتنی ویکسین خریدیں؟سندھ کی عوام کے لیے کتنی ویکسین خریدی گئی؟ کہاں ہے آپکی ویکسین جو آپ نے خریدی ہے؟ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لیے سیاست کرتا ہے، اگلے سال احسا س پروگرام کے لیے مجموعی طور پر 260 ارب مختص کیے جا رہے ہیں، ماں اور چھوٹے بچوں کی صحت کے لیے تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام لایا جا رہا یے، صحت سہولت پروگرام ایک انقلاب ہے، صحت سہولت پروگرام وفاق میں پھیلا دیا، پنجاب میں اس پروگرام کے لیے 80ارب لگانے جا رہے ہیں، جو صحت کارڈ میری جیب ہوگا وہی کارڈ ریب ترین پاکستانی کی جیب میں بھی ہو گا۔ہم نے بجلی کے بلوں میں کورونا ریلیف دیا، 435ارب روپے کے سود سے پاک قرضے دیے گئے، اسٹیٹ بنک کی روزگار اسکیم کے تحت 238 ارب روپے دیے گئے، غریبوں کو چھت فراہم کرنے کے لیے بینکوں کے ذریعے قرضے دیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑی صنعتیں تیس سے چالیس صنعتوں سے منسلک ہوتی ہیں، کورونا کے باوجود لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 12.8 اعشاریہ 8فیصد اضافہ ہوا، بجلی کی کھپت میں جولائی سے مارچ تک 9 فیصد اضافہ ہوا۔ اس سال اب تک ہماری ایکسپورٹ میں 14فیصد اور جولائی سے مئی تک ترسیلات زر میں 29 اعشاریہ 4فیصد اضافہ ہوا ہے، اپوزیشن زور لگا رہی ہے کہ بیرون ملک پاکستا نیوں سے پیسہ تو لیتے رہو لیکن انہیں ووٹ نہیں ڈالنے دو۔انہوں نے کہا کہ سندھ بھی پاکستان کا حصہ ہے سندھ کی عوام کی خدمت کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، سال میں دو مرتبہ ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ ہر کسان کو فصل کی کاشت کی ضروریات کے لیے قرضہ دیں گے، مشینری کے لیے 2 لاکھ کسانوں کو قرض دیں گے، اپنا گھر بنانے کے لیے 20 لاکھ تک بلاسود قرض فراہم کریں گے، ہر خاندان کا لاکھوں روپے سالانہ صحت کا خرچ حکومت اٹھائے گی۔مسلم لیگ کی حکومت ختم ہونے میں چند ہفتے باقی تھے جب میں نے اسی ایوان مین تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر گر رہے ہیں، ٹائی ٹینک کی مثال دی تھی کہ ہماری معیشت برفاتی تودے سے ٹکرانے والی ہے، اس وقت مفتاع اسماعیل نے بھی میری بات کی تائید کی تھی۔ہم نیاعلی تعلیم کا ترقیاتی بجٹ بڑھایا دیا ہے، ماحولیات کے لیے پی ایس ڈی پی میں 16 گنا اضافہ کیا ہے، کام یاب جوان پروگرام کے تحت دس ارب روپے کم سود والے قرضے دیے ییں، اسکلز فار آل کے نام سے تربیتی پروگرام شروع کیا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں