اسلام آباد(پی این آئی)وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی نے کہا ہے کہ حادثات سے بچاؤ کے لیے ریلوے کا پورا انفراسٹرکچر اپ گریڈ کیا جانا بہت ضروری ہے۔بدھ کو ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعظم سواتی کا مزید کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہمارے پاس کوچز 50 سال پرانی ہیں، انہی کی مرمت کر کے چلایا جاتا ہے۔انہوں نے اعتراف کیا کہ محکمے کے پاس کوئی نئی ٹیکنالوجی بھی نہیں، ہتھوڑوں سے ہی مرمت کی جاتی ہے۔ ڈہرکی حادثے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اطلاع ملتے ہی وہ جائے حادثہ پر پہنچے اور ٹریک کی مکمل بحالی تک وہ گراؤنڈ پر موجود رہے۔ان کے مطابق ابتدائی تحقیقات یہ بات سامنے آئی ہے کہ جہاں پر حادثہ ہوا وہاں ٹریک کی خرابی کا امکان بہت کم ہے۔ان کے بقول ’جب بوگیاں پٹڑی سے اتریں تو منٹ بھر میں ہی دوسری ٹرین آ گئی جس کی وجہ سے ڈرائیور کو بچاؤ کا موقع نہیں مل سکا اور قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔‘ریسکیو ٹرین کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اسے سٹارٹ کر کے حرکت میں لانے میں 45 منٹ لگتے ہیں مگر یہ دو سے ڈھائی گھنٹے لیٹ ہوئی، اس کے ذمہ داروں کا تعین کیا جا رہا ہے۔ انہوں بتایا کہ وہ سکھر ٹریک کو کئی مرتبہ خطرناک قرار دے چکے ہیں اور اس پر کئی مقامات پر رفتار کم کرنے پابندی ہے۔اعظم سواتی کے مطابق 60 ارب کی لاگت سے ٹریک بنائے جا رہے ہیں تاہم ریلوے کی مکمل اپ گریڈیشن کے لیے 620 ارب روپے درکار ہوں گے۔تحقیقات کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس کا سلسلہ جاری ہے تاہم اس میں تین سے چار ہفتے لگیں گے اور تمام باتیں سامنے آ جائیں گی۔ڈہرکی حادثے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 12 بوگیوں کا پٹڑی سے اترنا حادثے کی وجہ بنا۔ ان کے مطابق یہ پاکستان کی تاریخ میں دوسری بار ہوا ہے، ایک بار ایسا حادثہ 1990 میں ہوا تھا۔انہوں نے ایک بار پر اپ گریڈیشن پر زور دیتے ہوئے اسے پاکستان کی معیشت کے لیے ضروری قرار دیا۔بقول ان کے ’اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔’ انہوں نے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لیے فی کس 15 لاکھ اور زخمیوں کے لیے تین لاکھ روپے کا اعلان کیا۔انہوں اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ حادثے میں 67 افراد ہلاک اور ایک سو سات زخمی ہوئے۔حادثے پر ان کے استعفے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اگر استعفیٰ قیمتوں جانوں کا نعم البدل ہے اور اس سے حادثے کا شکار ہونے والوں کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے تو وہ اس کے لیے تیار ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں