اسلام آباد(آئی این پی)وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا ہے کہ مہنگائی پر قابو پانا صوبائی حکومتوں کا کام ہے، مارکیٹ میں بہت سی اشیا بالخصوص پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا تعلق خالصتا عالمی مارکیٹ سے ہوتا ہے اور اگر اس وقت اس کا موازنہ کیا جائے تو باقی ممالک سے پاکستان میں قیمتیں کم ہیں، تاہم صوبائی حکومتیں اگر کردار ادا کریں تو مقامی سطح پر پیدا ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں کمی لائی جا سکتی ہے، جمعہ کو غیر ملکی ویب سائٹ کودئیے گئے انٹرویو میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ وزیراعظم خود بھی مہنگائی کے حوالے سے تشویش رکھتے ہیں اور ساری کابینہ کو بھی مہنگائی کا ادراک ہے،18ویں ترمیم کے بعد بہت سی چیزیں صوبوں کے ہاتھ میں آگئی ہیں، میں تو وزیراعظم سے بھی کہہ رہی تھی کہ آپ صوبوں کو پابند کریں کیونکہ ایک ضلع کی سطح پر کمیٹیاں ہوتی ہیں جو قیمتیں چیک کرتی ہیں،سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ میں چونکہ کاشت کار بھی ہوں۔ ایک چیز میں اپنے گاؤں میں چند روپوں میں بیچ رہی ہوں، اگر ٹماٹر وہاں پر میں پانچ کلو 100روپے کا دے رہی ہوں تو کراچی میں آکر خود ہی 80 روپے کا ایک کلو ٹماٹر خرید رہی ہوں یہ فرق مڈل مین کے کردار کی وجہ سے ہے،انھوں نے کہا کہ مڈل مین اصل میں منافع کما جاتا ہے اور کاشت کار اور صارف دونوں نقصان میں رہتے ہیں، اس مڈل مین کے کردار کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صوبائی حکومتیں سرگرم ہوں،ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ کورونا اور مہنگائی کی وجہ غریب آدمی کو ریلیف پہنچانے کے لیے وزیراعظم کے احساس پروگرام کا بڑا فائدہ ہوا ہے اس سے کم از کم اس طبقے کی قوت خرید تو بڑھی ہے،انہوں نے کہا کہ فصلیں اچھی ہوئی ہیں اس کے باوجود مہنگائی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مڈل مین کا کردار روکنا ہوگا۔آپ دکان پر جاتے ہیں اور آٹا چینی گھی خریدتے ہیں تو ہر دکاندار اپنی مرضی کی قیمت لگاتا ہے اسے وزیراعظم نے نہیں بلکہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں نے روکنا ہے،موجودہ حکومت کی احتساب پالیسی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ مجھے بتائیں حکومت کون سا احتساب کر رہی ہے؟ ہمیں تو گلہ ہے کہ احتساب ہو ہی نہیں رہا حکومت کون سا احتساب کر رہی ہے؟وزیراعظم عمران خان بیان ضرور دیتے ہیں اور ان کی خواہش بھی ہے لیکن نیب ایک آزاد ادارہ ہے۔ ان کی سطح پر اگر کوئی چیز ہو رہی ہے تو وہ تو سب کے سامنے ہے۔ بہرحال ان کی رپورٹس دیکھتے ہیں تو وہ تو دکھاتے ہیں کہ کتنی ریکوریز کیں اور کتنے ملزمان تھے کہ جن سے یہ ریکوریاں ہوئیں لیکن نیب مکمل آزاد ادارہ ہے اور اس میں سمجھتی ہوں کہ حکومت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی ہے،وفاقی وزیر نے مطالبہ کیا کہ سابق اور موجودہ حکومتوں کا مکمل احتساب کیا جائے،جن کی اتنے سالوں سے یہ قوم یرغمال بنی ہوئی ہے،کون سی جمہوریت ہے جو احتساب کے بغیر چل سکتی ہے، جو بھی حکومت جاتی ہے جو بھی لوگ ہیں موجودہ حکومت اور سابق بھی ظاہر ہے اگر کوئی 14سے حکومت میں ہے یا 10سال سے ہے یا کسی نے 30 سال حکومت کی ہے تو ان کا احتساب تو ہونا چاہیے،انھوں نے کہا کہ میں نے آٹھ سال پہلے بدین میں ہسپتال شروع کیا، وہ مکمل نہیں ہو رہا اور اس کی لاگت بھی بڑھ گئی ہے،وجہ صرف یہ ہے کہ اس کا سنگ بنیاد میں نے رکھا تھا، تو ایسے منصوبے روکنے والوں کا احتساب کیا جانا چاہیے،قوی اسمبلی اجلاس کے دوران سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے کردار اور اس حوالے سے اپوزیشن کے تحفظات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ سپیکر اسد قیصر اپوزیشن کو بہت زیادہ وقت دیتے ہیں،کبھی نہیں دیکھا کہ کورم کی نشان دہی کے بعد انھوں نے اجلاس جاری رکھا ہو۔ میرا مشورہ ان کو یہی ہیکہ چاہے حکومت کا دباو ہو یا اپوزیشن کا وہ آئین، قانون اور قواعد کو سامنے رکھتے ہوئے ایوان کو چلائیں،اتنا زیادہ اپوزیشن کا پریشر ہے،اس وقت اپوزیشن آئے دن اتنے بڑے بڑے بینر اٹھا کر لے آتی ہے۔ سڑک اور پارلیمنٹ کے احتجاج میں فرق ہونا چاہیے، اگر سابق وزیراعظم اور باقی سب کھڑے ہو کر اس طرح کی حرکتیں کریں گے یا اس طرح کی حرکتوں کی حوصلہ افزائی بھی کریں گے کہ بینر بھی لگائیں، عجیب سی ہوٹنگ بھی کریں تو وہ زیب نہیں دیتا، انھوں نے کہا کہ اس وقت اپوزیشن میں وہ لوگ ہیں جن کا بہت سالوں کا تجربہ ہے۔ اتنے تجربہ کار ہو کر ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی پر تو زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پارلیمان کو چلنے دیں،اگر وہی خلاف ورزیاں کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ سے عوام کو منفی پیغام دے رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ میں نے تو پوری کوشش کی ہے کہ ان روابط میں فروغ کے لیے کردار ادا کروں تاکہ صوبے کے عوام کا بھلا ہو لیکن کوئی مخالفت برائے مخالفت کرتا ہے تو اس میں میں کچھ نہیں کر سکتی،ہر وہ کام جو وفاق کرنا چاہتا ہے لیکن اس کا اختیار صوبے کے پاس ہے تو وہاں وفاق بے بس ہو جاتا ہے،ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں صحت کارڈ دیا گیا ہے، پالیسی وفاقی حکومت کی تھی لیکن صوبوں نے اپنے عوام کو ریلیف دیا ہے، اس طرح میں چاہتی ہوں کہ صوبہ سندھ میں بھی انشورنس اور صحت کارڈ ملنے چاہیں، سندھ کے لوگوں کا مفت علاج ہونا چاہیے، وہ علاج کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے،انھوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم سے پہلے صوبوں کی جانب سے نیشنل فنانس کمیشن کا مطالبہ کیا جاتا تھا لیکن اب صوبائی فنانس کمیشن نہیں لایا جا رہا، صوبے وفاق سے تو کہتے ہیں کہ ہمارے صوبے سے گیس نکل رہی ہے لیکن جس جگہ سے گیس نکل رہی وہاں کے لوگوں کو محرومیاں مل رہی ہیں ان کی صحت تعلیم اور بہبود کے لیے کوئی کام نہ ہو تو غلط ہے،صوبے رائلٹی تو لے رہے ہیں لیکن اختیارات اور وسائل کو ضلعی سطح تک منتقل کرنے اور جہاں سے گیس اور دیگر وسائل نکل رہے ہیں وہاں خرچ کرنے سے ہچکچاتے ہیں تو یہ ناانصافی ہے،پاکستان میں سپورٹس فیڈریشنز کے کردار اور کھیلوں کے حوالے سے قائم اداروں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ یہاں پر شخصیات نے اداروں کو نقصان پہنچایا ہے، باقی جگہوں پر بھی پہنچایا لیکن سپورٹس فیڈریشنز میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ واقعی تشویشناک بات ہے، اس وقت ان فیڈریشنز کی مشاورت کے ساتھ نیشنل سپورٹس پالیسی بنا رہے ہیں جس کا ابتدائی ڈرافٹ تیار کیا ہے جس میں ہم نے ایک آزاد الیکشن کمیشن کی تجویز دی ہے جو ان فیڈریشنز کے انتخابات کروائے گا اسی طرح فیڈریشنز اور کھلاڑیوں کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے باڈی بھی تشکیل دی جائے گی،انھوں نے مزید کہا کہ کورونا نے پوری دنیا کو نقصان پہنچایا ہے لیکن کھیل سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ہم اس دفعہ سیف گیمز کے میزبان ہیں اور ہم اس کی تیاریاں کر رہے ہیں جونہی کورونا کی صورت حال بہتر ہوگی تو سیف گیمز کا پاکستان میں انعقاد ہوگا۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں