چارسدہ /اسلام آباد (آن لائن)پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اس وقت پاکستانی عوام نااہل حکومت کی وجہ سے شدید خطرناک صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں،حکومت، اس کے ترجمان اور وزرائ مستقل جھوٹ بول رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں معیشت بہتر ہوگئی ہے، یہ نااہل حکومت خارجہ پالیسی پر غیرسنجیدہ ہے ، اس وقت سی پیک منصوبے کی رفتار انتہائی سست ہے،جو صورتحال افغانستان میں پیدا ہو رہی ہے اس میں اس ناتجربہ کار حکومت کی وجہ سے پاکستان کو نقصان ہو سکتا ہے،منتخب عوامی نمائندے بہادری سے فیصلے کرتے ہیں لیکن یہ کٹھ پتلی حکومت نہ بھارت کو اور نہ کسی اور کو بہادری سے جواب دے سکتی ہے،پی ڈی ایم تقسیم کا شکار ہے اوراس کا وژن واضح نہیں، ہم چاہتے ہیں اپوزیشن مل کر پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ کی مخالفت کرے اور متفقہ حکمت عملی بنائے،حزب اختلاف میں ہر سیاسی جماعت اپنا منشور اور نظریہ ہوتا ہے، پی پی پی اور اے این پی کا نظریہ اور منشور پروگریسیو ہے اور ہم دونوں ایک پرامن، خوشحال اور ترقی پسند پاکستان چاہتے ہیں۔ ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے چارسدہ میں اے این پی کے رہنمائو ں کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کیا ۔بلاول بھٹو زرداری نے چارسدہ جا کر عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی اور دیگر اے این پی لیڈروں کے ساتھ بزرگ سیاستدان بیگم نسیم ولی خان کی رحلت پر تعزیت کی۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ، سید نیر حسین بخاری، سینیٹر فرحت اللہ بابر، فیصل کریم کنڈی، ہمایوں خان، شاذی خان ، ملک تہماس، روبینہ خالد، امجد آفریدی، شیر اعظم نذیر، احمد کنڈی، ساجد طوری، فرزند وزیر، ہدایت اللہ اور لیاقت شباب بھی چیئرمین بلاول بھٹو کے ہمراہ تھے ۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے عوام اس نااہل حکومت کی وجہ سے شدید خطرناک صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ عوام تاریخی مہنگائی اور بیروزگاری کا سامنا کر رہے ہیں۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے اے این پی کے ساتھ سیاسی اور نظریات رشتہ ہے اور دونوں جماعتیں ترقی پسند سیاست اور نظریے پر یقین رکھتی ہیں۔ دونوں پارٹیاں چاہتی ہیں کہ پاکستان ایک پرامن، خوشحال اور پروگریسیو ملک بنے۔ صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ پی پی پی اور اے این پی دونوں نے پی ڈی ایم کے عہدیداروںنے استعفے دے دئیے ہیں اور اب دونوں نے پی ڈی ایم میں شامل ہونے کا کبھی بھی اظہار نہیں کیا۔ ان دونوں پارٹیوں نے پی ڈی ایم کے ساتھ کافی وقت گزار ا ہے لیکن اب ایک دوسرے کو برابھلا کہنا زیب نہیں دیتا۔ ہم پی ڈی ایم نے ایک ایکشن پلان پر عمل پیرا تھے جس میں پارلیمان کے اندر اور باہر جدوجہد کرنا شامل تھا۔ ہمارے پاس ایک آپشن یہ بھی تھا کہ ہم پارلیمان میں اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد لائیں جس کو استعمال نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم ابھی تک پیپلزپارٹی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس نے پارلیمان سے استعفے نہیں دئیے ہیں اور وہ پارلیمان کے اندر حکومت کی مخالفت کرنے کی بات کر رہی ہے۔ کل پی ڈی ایم کی میٹنگ میں کسی حکمت عملی پر بات نہیں ہوئی اور نہ ہی ان میں کوئی کلیریٹی موجود ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپوزیشن مل کر پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ کی مخالفت کرے اور متفقہ حکمت عملی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ ہم مل کر ایکشن پلان پر عمل کرتے اور پارلیمانی آپشن استعمال کرتے تو اب تک پنجاب اور مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ایکشن پلان پر واپس نہیں آتے تو پی ڈی ایم میں شمولیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم یہ بات ضیائ کے دور سے سنتے آرہے ہیں کہ پیپلز پارٹی ختم ہوگئی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتی۔ ہمارے کارکن شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نظریے پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پوری اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ اس وقت ہم مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ ہم پارلیمان میں اکٹھے ہو کر حکومت کی مخالفت کر سکتے ہیں اور ہم پی ٹی آئی ایم بجٹ کی مخالفت کریں گے۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ حکومت اور اس کے ترجمان اور وزرائ مستقل جھوٹ بول رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ معیشت بہتر ہوگئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام شدید معاشی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں چیئرمین بھٹو نے کہا کہ یہ نااہل حکومت خارجہ پالیسی پر غیرسنجیدہ ہے۔ سی پیک کا منصوبہ صدر زرداری نے متعارف کروایا اور اس وقت سی پیک کے منصوبے کی رفتار انتہائی سست ہے۔ جو صورتحال افغانستان میں پیدا ہو رہی ہے اس میں اس ناتجربہ کار حکومت کی وجہ سے پاکستان کو نقصان ہو سکتا ہے۔ اور پورے خطے کے لئے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منتخب عوامی نمائندے بہادری سے فیصلے کرتے ہیں لیکن یہ کٹھ پتلی حکومت نہ بھارت کو اور نہ کسی اور کو بہادری سے جواب دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف میں ہر سیاسی جماعت اپنا منشور اور نظریہ ہوتا ہے اور پی پی پی اور اے این پی کا نظریہ اور منشور پروگریسیو ہے اور ہم دونوں ایک پرامن، خوشحال اور ترقی پسند پاکستان چاہتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں