لاہور(آئی این پی )لاہورہائی کورٹ کے3 رکنی فل بینچ نے مسلم لیگ ن کے صدر محمد شہباز شریف کی ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ہفتہ کو جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس شہباز رضوی اور جسٹس عالیہ نیلم پر مشتمل 3 رکنی فل بینچ نے 27 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں ضمانت منظورکرنے کے لیے 5 اہم فیصلوں پر انحصارکیا گیا ،فیصلے میں لکھا گیا کہ پراسیکیوشن سے اخلاقیات کے اعلیٰ معیار کی توقع کی جاتی ہے، عوامی عہدے پر کرپٹ شخص آ جائے تو جمہوری نظام پر عوام کا اعتماد چکنا چور ہو جاتا ہے۔عوامی نمائندے پر کرپشن کے الزامات سے سیاسی نقصان پہنچتا ہے جو شکست کی ایک قسم ہے، پبلک آفس ہولڈر کو سو فیصد مسٹرکلین ہونا چاہیے،فرد کی آزادی کے بنیادی اصول مدِنظر رکھنا عدالت کی ذمہ داری ہے، آزادی کے بنیادی اصولوں کی بنا پر ضمانت منظور یا مستردکی جاتی ہے۔عدالت ضمانت بعد ازگرفتاری میں آزادی کے اصولوں پر آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، شہباز شریف کیس مزید انکوائری کا متقاضی ہے،شہباز شریف نے کوئی جائیداد خریدی ،نہ ہی ان کی ملکیت ہے، ان کے اکائونٹ میں ٹی ٹیز آنے کا کوئی ثبوت بھی نہیں دیا گیا ، ان کے فیملی ممبرز کا ان کیزیرِکفالت ہونے کا براہِ راست ثبوت نہیں دیا گیا،پراسیکیوشن کے شہباز شریف پرمنی لانڈرنگ کے الزام کو بطور ناقابل تردید سچ نہیں مانا جاسکتا ۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ میں 110 گواہان کی بنیاد پر ابھی شہباز شریف کے خلاف اپنا کیس قائم کرنا ہے ،شہباز شریف کو سزا سنائے جانے یا ان کے بری ہونے کے برابر امکانات ہیں ،عدالت متفقہ طور پر سمجھتی ہیکہ سنجیدہ وجوہات کے باعث شہباز شریف شک کا فائدہ دیے جانے کے اہل ہیں۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہیکہ شہباز شریف کے خلاف عدم ثبوت پر بینچ جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کے ضمانت دینے کے فیصلے سے متفق ہے،شہبازشریف کو ضمانت نہ دینے والے جسٹس اسجد جاوید گھرال نے ذرائع آمدنی ٹیکس ریٹرنز میں ڈیکلیئر کرنے پر مظہر حسین آصف کی ضمانت منظورکی تھی،عمران خان نیازی کیس میں قرار پایا کہ مریم نوازکو والد کی زیر کفالت نہیں کہا جاسکتا،اہل خانہ کے ساتھ رہنامریم نواز کو زیر کفالت ثابت نہیں کرتا۔فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ شہباز شریف پر26کروڑ 90لاکھ کے اثاثوں کا الزام تو لگایاگیا لیکن کوئی ثبوت نہیں دیا گیا،شہباز شریف کے ذرائع آمدن ثابت کرنے کے لیے نیب نے کوئی تفتیش نہیں کی،نیب نے اعتراف کیاکہ شہباز شریف پر کک بیکس یا ناجائز رقوم وصول کرنیکا الزام نہیں ،بے دلی سے شہباز شریف کو مجرم ثابت کرنیکی کوشش کے باوجود نیب ثبوت دینے کی ذمہ داری سے بری نہیں ہوسکتا ،الزام ثابت کرنے کا سارا بوجھ ہمیشہ پراسکیوشن پر ہوتا ہے۔واضح رہے کہ 22 اپریل کو لاہور ہائیکورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی ضمانت منظور کی تھی۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں