کراچی (پی این آئی) کراچی کے قدیم علاقے گذدر آباد میں انگریز دور کی بنی ہوئی زرد پتھروں کی عمارتیں جا بہ جا تھیں۔ مگر آج ان میں ایک مسجد ہی رہ گئی ہے۔ جس کے متعلق علاقہ مکین کہتے ہیں کہ یہ دو سو سال سے زیادہ پرانی ہے۔ اورکسی زمانے میں یہاں جنات بھی نماز پڑھنے آتے تھے۔ اس مسجد کے آس پاس سو، سو سال پرانی بادامی مسجد اور بانگی مسجد بھی ہیں۔ مگر ان میں کئی تعمیراتی تبدیلیاں ہوچکیں۔ تاہم دو سو برس قدیم ’’بیچ والی مسجد‘‘پرانی شان و شوکت سے قائم ہے۔ مسجد کی کمیٹی کے رکن حافظ ریاض شیخ کا کہنا ہے کہ مسجد کو تعمیر ہوئے تقریباً دو سو برس سے زائد ہوچکے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسجد میں تبدیلیاں لائی جاتی رہیں۔ اسے ’’بیچ والی مسجد‘‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں یہ جگہ ایک اونچے ٹیلے کی صورت تھی اور درمیان سے ایک پلیٹ فارم پراس کی تعمیر ہوئی ۔کراچی سے شائع ہونے والے معروف روزنامے امت میں ماجد فرید ساٹی کے آرٹیکل میں حیران کن قصہ سنایا گیا ہے ۔ مضمون نگار کاکہنا ہے کہ انہیں یاد ہے ہم چھوٹے تھے تو چھ سات زینے طے کرکے مسجد تک پہنچتے تھے یہ مسجد چونکہ علاقے کے عین درمیان ہے اسی لئے اسے بیچ والی کہا جاتا ہے۔ سنا ہے مسجد کے عقب میں ایک ہندو شخص رہتا تھا جس کی عمر 120 سال کے قریب تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کے گھر کے پاس ایک دبے ہوئے پتھر پر اس مسجد کی تعمیر کا سنہ بھی لکھا ہوا تھا۔ اب تو کسی کو یاد بھی نہیں اور اب اس عمر کے لوگ بھی نہیں رہے۔ مگر اس کی تعمیر اس کے منبر و محراب دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کام ڈھائی تین سو سال پہلے کی بنائی ہوئی عمارتوں جیسا ہے جو انگریزوں کی آمد کے وقت تھیں۔ مسجد کی چھت پر انتہائی خوبصورت بیل بوٹے بنے ہوئے تھے۔ یہ سب پتھروں پر بنائے شاہکار تھے مگر وقت کی گرد میں دفن ہوگئے۔حافظ ریاض نے ایک حیرت انگیز واقعہ بتایا کہ ایک زمانے میں جب حافظ کم ہوتے تھے تو ہماری مسجد کے امام نے اپنے ایک دوست کو بلایا جو تربت کے قریب ایک گائوں میں رہتا تھا۔ وہ رات کے وقت بیچ والی مسجد کی چھت پر جاکر قرآن شریف پڑھتے تھے۔ تلاوت کے دوران وہ ایک بلب جلاتے، باقی آس پاس اندھیرا ہوتا۔ ایک بار خوشگوار فضا میں وہ اپنی خوش حالی سے کائنات کو مسرور کر رہے تھے کہ محسوس ہوا کہ پیچھے کوئی موجود ہے۔ گردن گھمائی تو دیکھا کہ سفید لبادوں میں نورانی چہرے والے لوگ جمع ہیں۔ وہ اس منطر سے گھبرا گئے اور پسینے چھوٹ گئے۔ ان لوگوں نے حافظ جی سے کہا، گھبرائو مت ہم جنات ہیں۔ ہم مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں۔ جب تم قرآن شریف پڑھ رہے تھے تو ہمیں بہت اچھا لگا، اس لیے ہم یہاں جمع ہوئے۔ اس کے بعد وہ حافظ صاحب ایک مہینے تک رکے رہے اور پھر جاتے جاتے نور محمد صاحب کو سارا واقعہ بتا کر گئے۔ نور محمد صاحب نے ہم بچوں کو جمع کرکے کہا کہ اوپر چھت پر مت جایا کرو۔ وہاں نماز پڑھنے کیلیے جنات آتے ہیں۔۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں