متحدہ عرب امارات کی مدد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان انٹیلی جنس سطح کے مذاکرات کا دعویٰ؟ پاکستان کا باقاعدہ ردِعمل بھی آگیا

اسلام آباد (پی این آئی)وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کسی بھی طرح کے امن مذاکرات میں مصروف نہیں اور متحدہ عرب امارات کسی بھی طرح سے سہولت کار کا کردار ادا نہیں کررہا، تمام دوست کہتے رہے ہیں ایٹمی طاقت کے حامل دونوں ملکوں کو جنگ کی راہ نہیں اپنانی چاہیے اور مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ مذاکرات ہیں، پاکستان مذاکرات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا ،حکومت، فوج اور آئی ایس آئی سمیت تمام ادارے ایک صفحے پر ہیں ،افغانستان کی تمام خرابیوں کا ذمے دار صرف طالبان کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا،دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے ۔ترک نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی ورلڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں میزبان آندریا سانکے کے سوال کو درست کرنا چاہتا ہوں کہ کیا متحدہ عرب امارات افغانستان میں امن مذاکرات میں زیادہ دلچسپی لینے کے بجائے پاکستان اور بھارت کے مابین امن مذاکرات کے خفیہ دور میں سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے؟ہم اس وقت کوئی امن مذاکرات نہیں کر رہے ہیں اور متحدہ عرب امارات کسی بھی طرح کے سہولتکارکا کردار ادا نہیں کررہا،میں نے’ثالثی کے کردار‘کے بارے میں کہانیاں دیکھی ہیں لیکن ایسا ہو نہیں رہا، متحدہ عرب امارات ایک دوست ملک ہے اور اس کے پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، تمام دوست ممالک مستقل یہ کہتے رہے ہیں کہ ایٹمی طاقت کے حامل دونوں ملکوں کو جنگ کی راہ نہیں اپنانی چاہیے اور مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ مذاکرات ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کبھی بھی مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹا لیکن بھارت پیچھے ہٹا ہے اور اس نے اس طرح کے کئی اقدامات اٹھائے جس سے ماحول خراب ہوا،آپ پاکستان کے بیانات کو دیکھیں، وزیر اعظم عمران خان کے انتخابات میں کامیابی کے بعد دیے گئے بیان کو دیکھیں آپ امن کی طرف ایک قدم اٹھائیں گے، تو ہم دو اٹھائیں گے،یہ مفاہمت کی پیشکش کی تھی کیونکہ ہم ایک حکومت کی حیثیت سے عوام پر مبنی ایجنڈا رکھتے ہیں، ہم معاشی تحفظ چاہتے ہیں، ہم اپنے معاشی استحکام پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں امن کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے مشرقی پڑوسی کے ساتھ ساتھ مغربی محاذ پر بھی قیام امن کی ضرورت ہے لہٰذا بات چیت ہی اصل حل ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر بھارت پاکستان کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ وہ بات کرنے پر راضی ہے تو پھر اسے سازگار ماحول بنانا ہو گا جسے اس نے پانچ اگست 2019 کو اٹھائے گئے اقدامات سے سبوتاژ کردیا، کشمیریوں سے ان کی ریاست کا حق چھین لیا گیا، انہیں اجنبی قرار دے کر حقوق سے محروم کردیا گیا اور وہ اب بھی ڈبل لاک ڈاون میں ہیں، ہم صرف کووڈ لاک ڈاون کا سامنا کر رہے ہیں ،کشمیریوں کو کووڈ لاک ڈاون کے ساتھ ساتھ فوجی محاصرے کا بھی سامنا ہےتو ہم اس ماحول میں لوگوں سے کیسے بات کریں گے؟ آپ کشمیریوں کو راحت دیں اور انہیں ریاست کا درجہ دیں، یہاں تک کہ ہندوستان کے اندر سیکولر آوازوں نے بھی کہا ہے کہ ہندوستانی حکومت کی کشمیر پالیسی ناکام ہوچکی ہے، وہ ان مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی جس کے لیے یہ پالیسیاں مرتب کی گئی تھیں لہٰذا ان پالیسیوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اگر آپ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔جب وزیر سے میزبان نے سوال کیا کہ پاکستانی حکومت اور فوج افغان امن عمل میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ حکومت، فوج اور آئی ایس آئی (انٹر سروسز انٹیلی جنس) سمیت تمام ادارے ایک صفحے پر ہیں اور سب کو یقین ہےکہ ایک پرامن،مستحکم،جمہوری اور خوشحال افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے۔انہوں نے دوحہ امن مذاکرات، امریکی افواج کےانخلاکےحوالےسےمعاہدے،12 ستمبر سے بین الافغان امن مذاکرات کےآغازاوراس حوالے سے طے پانے والے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہم سب امن عمل میں پیشرفت کی پوری کوشش کر رہے ہیں اور پاکستان کے کردار کے بغیر اس مقام تک نہیں پہنچا جا سکتا تھا،یہ پاکستان کے کردار کے بغیر ممکن نہیں تھا، اب وہ آزاد لوگ ہیں، ہم انہیں صرف یہاں تک لا سلتے تھے، بالآخر فیصلے افغان عوام کو ہی کرنے پڑیں گے۔جب میزبان نے وزیر خارجہ سے سوال کیا کہ کیا طالبان سے بات چیت کو امن مذاکرات کہا جا سکتا ہے کیونکہ کچھ حلقے اس کو بلیک میلنگ سے تعبیر کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں مذاکرات میں ان کے ساتھ شریک تھا اور میرے خیال میں انہیں بھی اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ اگر وہ چاہتے کہ دنیا انہیں تسلیم کرے تو انہیں دنیا سے بات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تشدد کوئی حل نہیں، تشدد اور امن ایک ساتھ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہم نے انہیں یہی بات سمجھانے کی کوشش کی کہ جنگ بندی کے لیے تشدد میں کمی انتہائی ضروری ہے، لوگوں کی جانب سے تاثر غلط ہے کہ افغانستان میں تشدد کا تعلق طالبان سے ہے، افغانستان کی تمام خرابیوں کا ذمے دار صرف طالبان کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ وہاں کالعدم داعش جیسی دہگر دہشت گرد تظیمیں بھی فعال ہیں،افغانستان میں ایک ایسا عنصر ہے جو جنگ کے ماحول سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہا ہے اور جو امن کا دشمن ہے، طالبان پر پاکستان کے اثرورسوخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، ہم ان سے اس لیے بات کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ افغانستان میں ان کی بات مانی جاتی ہے اور دو دہائیوں کی لڑائی کے بعد دنیا کو بھی یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ آپ ان کو مرکزی دھارے کا حصہ بنائے بغیر امن قائم نہیں کر سکتے۔میزبان نے وزیر خارجہ سے پوچھا کہ کیا وہ کوئی ایسی ممکنہ صورتحال دیکھی رہے ہیں جس میں داعش اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں طالبان مل کر کام شروع کردیں اور صورتحال بد سے بدتر ہو جائے؟ اس کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم داعش کے حامی ہیں اور نہ ہی القاعدہ کی حمایت کرتے ہیں، در حقیقت ہم نہیں چاہتے ہیں کہ کوئی بھی دہشت گرد تنظیم خطے میں قدم جمائے اور پڑوسیوں اور خطے کو نقصان پہنچائے، پاکستان نے اپنے علاقوں کو دہشت گردی سے پاک کرلیا ہے اور مزید بہتر سرحدی انتظام کے لیے سرحد پر باڑ لگانا شروع کردی ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گرد دہشت گرد ہیں اور اس کا اطلاق ہر جگہ ہوتا ہے، وہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھائیں گے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اگر آپ دہشت گردی کے واقعات کو دیکھیں تو ان میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔میزبان نے کہا کہ پاکستان میں تو دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوئی ہے لیکن افغانستان میں نہیں جس پر شاہ محمود قریشی نے جواب دیا کہ افغانستان میں یہ اس حد تک کم نہیں ہوئے، جس حد تک ہونا چاہیے تھا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان مستقل بئٹھ کر بات چیت کرے پر زور دے رہا ہے۔ان سے پروگرام میں میں مزید سوال پوچھا گیا کہ طالبان کو سیاسی جماعت کے طورپر تسلیم کر کے ہم کس طرح کی مثال قائم کریں گے اور کیا یہ انتہا پسندی کو فائدہ پہنچانے کے مترادف ہے تو وزیر خارجہ نے جواب دیا ہم کسی بھی طرح کے دہشت گرد عناصر کو کس طرح انعام دے سکتے ہیں، پاکستان نے دہشت گردی میں 83ہزار جانیں گنوا دی ہیں اور اس کی بہت بھاری معاشی قیمت ادا کی ہے، افغانستان آج جمہوری ملک ہے، افغانستان میں خواتین کا اپنا ایک کردار ہے اور آپ انہیں بند کر کے پنجرے میں نہیں رکھ سکتے، لڑکیاں سکول جانا چاہتی ہیں اور اس بات کا احترام کیا جانا چاہیے، طالبان کو نئی حقیقت کو قبول کرنا پڑے گا اور گولی کے بجائے ووٹ کے حق کی جانب قدم بڑھانا پڑے گا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ جب جمہوری افغانستان انتخابات ہوں گے اور رائے دہندگان طالبان کو کسی بھی حکومت میں تسلیم نہیں کریں گے تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ اس رائے کا احترام کریں گے؟اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ لوگوں میں مقبول ہیں، وہ بیلٹ باکس پر اپنی مقبولیت کی جانچ کیوں نہیں کرتے اور اگر افغانستان کے عوام انہیں ووٹ نہیں دیتے ہیں تو ہم اس کا احترام کریں گے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ طالبان کو بدلنے کا ایک موقع ضرور دینا چاہیے۔انہوں نے کہا ہے کہ ہم اپنا کردار ادا کر چکے، اب وقت آگیا ہے کہ افغانی خود کردار ادا کریں، بقیہ فیصلہ افغانستان کے عوام کو کرنا ہے کہ وہ کس طرح کی حکومت چاہتے ہیں، کس قسم کی سیاسی تقسیم چاہتے ہیں، ہم ان کو بتانے والے کون ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی کے حوالے سے مجھے فکر ہے اور مجھے پاکستان کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ ہم ایک مستحکم، پرامن افغانستان چاہتے ہیں۔افغان امن عمل میں ترکی کے کردار کے حوالے سے سوال پر وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکی کا کردار بہت اہم ہے اور افغانستان میں ترکی کا کافی اثر و رسوخ ہے اور اس سلسلے میں کردار ادا کرنے پر ہم ترکی کے شکر گزار ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ افغانوں کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا وہ ایک دوسرے کو مارتے رہنا چاہتے ہیں، کیا وہ باقی دنیا سے کٹ کر رہنا چاہتے ہیں یا دنیا میں عزت و مقام چاہتے ہیں کیونکہ دنیا نے انہیں اس مقام تک پہنچانے کے لیے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں۔

close