اسلام آباد( آئی این پی ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد وضوابط میں پاکستان پیپلز پارٹی کی خواتین ارکان اسمبلی کو نامعلوم نمبروں سے دھمکی آمیز فون کالز موصول ہونے کا انکشاف ہوا ہے ، رکن اسمبلی شاہدہ رحمانی نے کمیٹی کو بتایا کہ مختلف پارلیمنٹیرینز کی جانوں کو خطرہ ہے، پیغام آتا ہے کہ کس طرح آپ کو مارا جائے گا ، جبکہ رکن اسمبلی شگفتہ جمانی نے کہا کہ مجھے بھی کالز آتی رہتی ہیں، ایک محکمے سے مختلف محکمے نکل رہے
ہیں لیکن ہوتا کچھ نہیں ہے، یا تو ہم سیاست چھوڑ دیں اور گھروں میں بیٹھ جائیں،سب کو پتہ ہے وہ نمبر کس کے ہیں کہاں سے آئے ہیں، سب سمجھتے ہیں لیکن اس طرف جانا نہیں چاہتے، میں تو ڈر کے مارے فون ہی نہیں اٹھاتی، کمیٹی نے آئی جی سندھ اور سیکرٹری داخلہ سندھ کو شاہدہ رحمانی اور شگفتہ جمانی کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کر دی ، کمیٹی نے کورونا سے بچائو کی ویکسینیشن پمز کی او پی ڈی کے بجائے پاک چائنہ سینٹر میں کرنے کی ہدایت بھی کر دی ۔پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط کا اجلاس چیئرمین کمیٹی رانا قاسم نون کی صدارت میں ہوا، اجلاس میں رکن اسمبلی شاہدہ رحمانی کو دھمکی آمیز ٹیلی فون کالیں موصول ہونے کا معاملہ زیر غور آیا ،شاہدہ رحمانی نے کہا کہ ایک سال سے یہ مسئلہ چلا آرہا ہے،مختلف پارلیمنٹیرینز کی جانوں کو خطرہ ہے، پیغام آتا ہے کہ کس طرح آپ کو مارا جائے گا ، ہمیں تحفظ نہیں ملے گا تو ہم کیاکریں گے،ایف آئی اے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ دوکیس تھے ، ایک کیس میں ملزم کو پکڑ لیا ہے، دوسرے کیس میں انٹرنیشنل ادارے تعاون نہیں کر رہے،پی ٹی اے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ یو کے ،کے نمبر ہیں ، ایف آئی اے کو ہم نے لکھا تھا ، شاہدہ رحمانی نے کہاکہ مجھے فون اور ایس ایم ایس بھی آئے تھے کہ آپ کا بیٹا گھر آگیا ہے اس کو مار دیا جائے گا، سوشل میڈیا پر میرے خلاف مہم چلائی گئی،ایف آئی اے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ معاملے پرکچھ پیشرفت ہو گئی ہے، رکن کمیٹی شگفتہ جمانی نے کہا کہ یہ کس کی پردہ پوشی کر رہے ہیں مجھے بھی کالز آتی رہتی ہیں، ایک محکمے سے مختلف محکمے نکل رہے ہیں لیکن ہوتا کچھ نہیں ہے، یا تو ہم سیاست چھوڑ دیں اور گھروں میں بیٹھ جائیں،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سندھ میں کس کی حکومت ہے؟جس پر شگفتہ جمانی نے کہا کہ آپ کی حکومت ہے ، کہتے ہیں توہم یہاں پربھی شکایات نہیں کریں گے ، کل کو دعا کے لیئے مت آئیے گا، متعلقہ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ
وی پی این نمبرز کا ٹریس کرنا سارے ملکوں کے لیئے مشکل ہے ،شگفتہ جمانی نے کہا کہ سب کو پتہ ہے وہ نمبر کس کے ہیں کہاں سے آئے ہیں، سب سمجھتے ہیں لیکن اس طرف جانا نہیں چاہتے، میں تو ڈر کے مارے فون ہی نہیں اٹھاتی، کمیٹی نے آئی جی سندھ اور سیکرٹری داخلہ سندھ کو شاہدہ رحمانی اور شگفتہ جمانی کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا، اجلاس کے دوران رکن اسمبلی رمیش لال کی جانب سے موٹروے پولیس حکام کے رویئے سے متعلق پیش کی گئی تحریک استحقاق کا جائزہ لیا گیا ،آئی جی موٹروے پولیس نے کمیٹی کو بتایا کہ رمیش لال کے ڈرائیور نے خلاف ورزی کی، رمیش لال کا کوئی قصور نہیں ان کے ڈرائیور کا قصور ہے،کل ہم نے 43 ہزار چالان کیئے ہیں ہم 14سے پندرہ لاکھ ٹریفک روزانہ ہینڈل کرتے ہیں، ہم نے قانون کے مطابق ایکشن لیا ہے، رمیش لال نے کہا کہ ویڈیو بھی انہوں نے خود بنائی اور پبلک بھی کی،کسی کی تذلیل نہ کی جائے، رکن کمیٹی محسن شاہ نواز نے کہا کہ چالان کٹتے ہوئے کسی شہری کی ویڈیو بنانا بھی مناسب نہیں ہے، کیا ایس او پیز اور رولز میں لکھا ہے کہ چالان کٹتے ہوئے ویڈیو بنے گی؟موٹروے پولیس حکام نے کمیٹی کو بتایا وہ ویڈیو وائرل کرنے کی نیت سے ہر گز ریکارڈ نہیں کی گئی، رکن کمیٹی نواب شیر نے کہا کہ روڈ بلاک کرنے کا ہمیں کون سا اختیار ہے یہ تو ہماری بھی غلطی ہے، اتنا غصہ ہمیں نہیں کرنا چاہیئے،رمیش لال نے کہا کہ میری تذلیل کی گئی،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جس نے ویڈیو وائرل کی ہے اس کے خلاف آئی جی ایکشن لیں،اجلاس کے دوران آئی جی موٹروے پولیس نے کہا کہ اگر کوتاہی ہوئی ہے تو میں معذرت کر لیتا ہوں، انہوں نے کہا کہ ہماری تنخواہیں آدھی ہو گئیں ہیں ،چیئرمین صاحب ہماری تنخواہیں بڑھائیں،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایس پی صاحب ایم این اے رمیش لال کا بیان لیں گے اور کیس ڈسچارج کر کے کمیٹی کو رپورٹ کریں گے ، کمیٹی نے معاملہ نمٹا دیا، اجلاس میں
وفاقی وزیر فواد چوہدری کی جانب سے ایک نجی ٹی وی چینل کے خلاف پیش کی گئی تحریک استحقاق کا بھی جائزہ لیا گیا،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی کی سفارشات پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا، کمیٹی کی سفارشات کی کاپی سیکرٹری اطلاعات اور پیمرا کو بھیجی جائے اور سیکرٹری اطلاعات اس معاملے پر ایک میٹنگ کریں اور کمیٹی کی سفارشات پر عمل کر دیں ، اجلاس میں رکن اسمبلی علی نواز اعوان کی جانب سے پمز کے ڈائریکٹر کے خلاف پیش کی گئی تحریک استحقاق کا بھی جائزہ لیا گیا، ڈائریکٹر پمز نے کمیٹی کو بتایا کہ مجھے آئے ہوئے دو مہینے ہوئے ہیں ،23 لوگ ایمرجنسی میں پڑے ہوئے ہیں اور ایک بیڈ بھی نہیں ہے، ایک مریض کا نام کوئی دیں کہ کس مریض کو ہم نے نظر انداز کیا ہے ، میرے آنے سے پہلے اڑھائی مہینے پمز بند پڑا تھا، ہمارا کوئی اضافی بجٹ نہیں اور کویڈ کے سب سے زیادہ مریض ہمارے ہسپتال میں ہیں، ہم نے کبھی بدتمیزی نہیں کی ہے، مظلوم تو ہم ہیں ہمیں ملزم ٹھہرایا جارہا ہے،ہمیں کورونا کے حوالے سے کوئی اضافی بجٹ نہیں دیا گیا، کویڈ کے لیئے کوئی بجٹ دیں، ہم پر بہت بوجھ ہے، پمز کی او پی ڈیز بند ہیں، اوپی ڈی کو کورونا کو ویکسینیشن سنیٹر بنا دیا ہے ، ویکسینیشن کے لیئے ہسپتال کی ضرورت نہیں ہے، لاہور میں ایکسپو سینٹر میں ویکسینیشن ہو رہی ہے، کمیٹی نے معاملے پر بریفنگ کے لیئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کو اگلے اجلاس میں بلانے کا فیصلہ کر لیا جبکہ کورونا سے بچائو کی ویکسینیشن پمز کی او پی ڈی کے بجائے پاک چائینہ سینٹر میں کرنے کی ہدایت کر دی ۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں