لاہور (پی این آئی) پنجاب بورڈ کمیٹی آف چیئرمینز نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ امتحانات کا ترمیم شدہ نیا شیڈول جاری کردیا۔پنجاب بورڈ کمیٹی آف چیئرمینز کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ میٹرک کے امتحانات 25 مئی سے لیے جائیں گے جبکہ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات 3 جولائی سے شروع ہوں گے۔ میٹرک امتحانات
کے نتائج 21 ستمبر اور انٹرمیڈیٹ کا نتیجہ 20 اکتوبر کو جاری ہوگا۔دوسری جانب 18 مئی سے شروع ہونے والے پہلی سے آٹھویں جماعت تک کے امتحانات ملتوی کردی گئے ہیں۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان جماعتوں کے امتحانات جون میں لیے جاسکتے ہیں۔ لانگ مارچ کامیاب، حکومت نے تعلیمی ادارے کھولنے، این سی او سی کے فیصلوں میں اساتذہ کی شمولیت کا مطالبہ مان لیا اسلام آباد(آئی این پی)آل پاکستان پرائیویٹ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے تحت تعلیمی اداروں کی طویل بندش، ہزاروں اساتذہ کی بے روزگاری،چائیلڈ لیبر میں اضافہ،سکول مالکان کی معاشی بدحالی اور حکومت کی جانب سے ریلیف پیکج کی فراہمی میں مسلسل تاخیر کے خلاف ملک گیر لانگ مارچ ڈی چوک اسلام آباد میں ہوا، دن بھر پولیس سے آنکھ مچولی کے بعد بالآخر لاہور،پشاور اور راولپنڈی سمیت دیگر شہروں سے آنے والے احتجاجی مظاہرین ڈی چوک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے لانگ مارچ کے قائدین نے 12 اپریل کو ہر صورت تعلیمی ادارے کھولنے کااعلان کردیا اورکہا کہ مارکیٹیں، شاپنگ مالزاوردیگرسرگرمیاں کھلی ہیں اور سکول بند ہیں، تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش سے ملک بھرمیں تعلیمی بحران پیدا ہورہا ہے بعد ازاں مظاہرین کے ساتھ انتظامیہ کے مزاکرات ہوئے جن میں پیر کو نمائندہ وفد کی اسد عمر سے ملاقات اور گرفتاراساتذہ کی رہائی کی شرط پرمظاہرین نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔تفصیلات کے مطابق تعلیمی اداروں کی بندش کے خلاف جمعرات کو آل پاکستان پرائیویٹ سکولزاینڈ کالجزایسوسی ایشن کے تحت ملک گیر لانگ مارچ ہوا جس میں نجی تعلیمی اداروں کی ملک گیر ایسوسی ایشنز، تاجر تنظیمیں، سول سوسائٹی، پک ڈراپ سروس،سٹیشنری شاپس، والدین،اساتذہ اور طلبا و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی، آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا نے لاہور سے قافلے کے ہمراہ شرکت کی جبکہ انجمن تاجران پاکستان کے صدراجمل بلوچ و دیگر تاجر رہنماء بھی اس موقع پر موجود تھے۔قبل ازیں احتجاجی مظاہرین نے پلے کارڈ اور بینرز اٹھا کر نیشنل پریس کلب سے ڈی چوک پر مارچ کیا۔اس دوران مظاہرین نے کھولو، کھولو سکول،کھولواورگوشفقت گوسمیت مطالبات کے حق میں شدید نعرے بازی بھی کی۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے
مظاہرین کے گرد وفاقی پولیس کی بھاری نفری اورواٹرکینن موجود تھی۔پولیس نے فیض آباد، ترنول، چھبیس نمبر چونگی، موٹر وے چوک، گولڑہ موڑ کے مقام پر مظاہرین کو روک لیا گیا اور بعض مظاہرین کو وقتی طور پر حراست میں بھی لیا گیا جبکہ راستے روکنے کی وجہ سے اسلام آباد آنے والی ٹریفک بلاک ہوگئی اورگاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مارکیٹیں، شاپنگ مالزاوردیگرسرگرمیاں کھلی ہیں لیکن سکولوں کو سازش کے تحت بند کیا گیاہے۔ تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش سے ملک بھرمیں تعلیمی بحران پیدا ہورہا ہے۔اس دوران آل پاکستان پرائیویٹ سکولزاینڈ کالجزایسوسی ایشن نے این سی اوسی کا 28 اپریل تک تعلیمی ادارے بند رکھنے کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے 12 اپریل سے سکول وکالجزکھولنے کا اعلان بھی دہرایا۔آل پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج ہمارے قافلے کو روکا گیا اساتزہ پر لاٹھی چارج کیا گیا،گرفتار اساتذہ کو فورا رہا کیا جائے،سکول کھولنے کا فورا حکم جاری کیا جائے،اہم مطالبہ سات کروڑ بچوں کو تعلیم دینے کا حق ہے،خیرات سے ملنے والی ویکسین اپنے دوستوں
کو دی جا رہی ہیں،دوسرا مطالبہ سکول کے سات کروڑ بچوں اور اساتذہ کو بھی فری ویکسین فراہم کی جائے۔آل پاکستان پرائیویٹ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر ملک ابرار حسین نے کہاکہ تمام تر حکومتی ہتھکنڈوں کے باوجود کامیاب لانگ مارچ پر تمام سٹیک ہولڈرز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔تعلیمی اداروں میں 50 فیصد حاضری کے ساتھ 11 اپریل سے تعلیمی سلسلہ جاری کیا جائے،بدقسمتی سے اس ملک کے بچوں پر تعلیمی ادارے بند کیے گئے ہیں جو کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں ہے۔استاد رہنما منزہ نعمان نے کہا کہ سکول کھولے جائیں تاکہ بچوں کا مستقبل تاریک نہ ہو۔اساتذہ کا احترام کیا جائے اور تعلیم دشمن اقدامات نہ کئے جائیں،تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے سے ڈاکٹر انجینئر اور دیگر شعبے کے طلبہ متاثر ہوئے ہیں۔ اگر وزیر اعظم محفوظ نہیں تو بچوں کے سکول بند کیوں کئے گئے۔ صدر آل پاکستان انجمن تاجران اجمل بلوچ کا کہنا تھاکہ پرائیویٹ سکولز کا مطالبہ جائز ہے۔تمام سرکاری و نجی سکول کھولے جائیں۔پرائیویٹ سکولز اور کاغذ انڈسٹری تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔اس وقت ملک کا استاد اور کاروباری طبقہ سخت
مشکلات کا شکار ہے۔سکولوں سے وابستہ کاروباری طبقہ بھی شدید متاثر ہے۔ حکومت تمام طبقات کو مشکلات سے نکالنے کا طریقہ نکالے۔شفقت محمود کو شفقت کا کچھ معلوم نہیں، وزیر اعظم کہتے ہیں ہم نے کاروبار بند نہیں کرتے تو پھر یہ بند کون کر رہا ہے،چھ خدا کا خوف کریں ہمیں بے روزگار کر کے مارا جا رہا ہے۔شام کے وقت احتجاجی مظاہرین کے ساتھ انتظامیہ کے مزاکرات ہوئے۔اس دوران اگلے ہفتے نمائندہ وفد کی اسد عمر سے ملاقات،این سی او سی کے فیصلہ جات میں اساتذہ کے نمائندوں کو شامل کرنے اور گرفتاراساتذہ کی رہائی کی شرط پرمظاہرین نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔بعد ازاں مظاہرین پرامن طورپر منتشر ہوگئے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں