اسلام آباد (آئی این پی)پیپلزپارٹی کے رہنماء سعید غنی نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم اجلاس ملتوی ہونے کو کسی دوسرے حوالے سے جوڑنے کی ضرورت نہیں، تاخیری حربے استعمال کرنے کے صرف الزامات ہیں ، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کا رویہ درست نہیں ،بار بار کہا جا رہا ہے کہ جواب طلب کیا جائے گا ، اس طرح تو ہمارے پاس بھی بڑے سوالات ہیں ، اس حکومت سے جان چھڑانے ہیں تو پی ڈی ایم اتحاد کو جاری رکھنا ہوگا ۔ہفتہ کو نجی ٹی وی
چینل سے پیپلزپارٹی کے رہنماء سعید غنی نے کہا کہ پی ڈی ایم اجلاس ملتوی ہونے کو کسی دوسرے حوالے سے جوڑنے کی ضرورت نہیں تاخیری حربے استعمال کرنے کے صرف الزامات ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کا رویہ درست نہیں ۔ بار بار کہا جا رہا ہے کہ جواب طلب کیا جائے گا ۔ اس طرح تو ہمارے پاس بھی بڑے سوالات ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس حکومت سے جان چھڑانے ہیں تو پی ڈی ایم اتحاد کو جاری رکھنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کوئی منت ترلے کرکے باپ پارٹی سے ووٹ نہیں لئے ان کیاپنے ہی اختلافات تھے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا ۔ پی ڈی ایم میں شامل کسی جماعت کو دوسری جماعتوں سے جواب طلب کرنے حق نہیں صرف سربراہی اجلاس بلا کر بات کی جا سکتی ہے ۔ چار لوگ سات ملائے بغیر بھی اپوزیشن لیڈر کے لئے پیپلز پارٹی کے نمبر پورے تھے ۔ اگر ہماری نیت پر شک کیا جائے گا تو ہمارے پاس بھی شک کرنے کی بڑی وجوہات ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی کے ساتھ سینٹ الیکشن پنجاب میں اتحاد کیا ۔ مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد دھرنا یقین دہانی پر ختم کیا ۔ بتایا جائے کہ کس نے یقین دہانی کرائی تھی ۔ پیپلز پارٹی سینیٹ کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے اگر دوسری جماعتیں یہ تسلیم نہیں کرتی تو پنجاب میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کو تسلیم کرنے کا پیپلزپارٹی کے پاس بھی کوائی جواز نہیں ۔ پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی، سینئر صحافی نے دلائل دیتےہوئے بڑا دعویٰ کر دیا لاہور(پی این آئی) پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی نہ ہونے کا امکان ہے، پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت اور سینیٹ میں زیادہ ارکان ہیں، پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر اسٹیبلشمنٹ سے خواہ مخواہ کی لڑائی نہیں چاہتی۔ سینئر تجزیہ کارطلعت حسین نے اپنے تجزیے میں کہا کہ پیپلزپارٹی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بڑے پرانے ہیں، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بڑی طاقتور اور مقبول تھیں، لیکن پھر بھی
وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کرکے واپس آئیں، لیکن تعلقات سے مراد یہ نہیں سیاسی طور پرمکمل بچت ہوجائے گی۔آصف زرداری کے بڑے پرانے روابط ہیں، اس میں لڑائی ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہےپیپلزپارٹی طاقت میں ہے، سندھ میں حکومت ہے سینیٹ میں زیادہ سیٹیں ہیں۔پیپلزپارٹی نہیں چاہتی کہ اسٹیبلشمنٹ سے خواہ مخواہ لڑائی جاری رکھے۔ پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کے ساتھ ہاتھ کیا لیکن یہ احمقانہ فیصلہ کیا ۔اتفاق کرتا ہوں کہ ثاقب نثار جیسے لوگ جج بن جاتے ہیں، ان کو سیٹ کا تحفظ حاصل ہوجاتا ہے اور وہ اس سیٹ کو اپنی کھوکھلی عزت کیلئے استعمال کرتے ہیں، صرف ثاقب نثار نہیں ایسے کئی لوگ ہیں۔لیکن ایک دن عہدے کا تحفظ ختم ہوجاتا ہے پھر احساس ہوتا ہے کہ اس بندے نے کیا کام کیے؟ حقائق قوم کو بتانے کی ضرورت نہیں، ان کو خود پتا ہے، اگر قوم کو حقائق نظر نہیں آرہے معاشی اور معاشرتی حقائق سمجھ نہیں آرہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے، اور پھر کوئی بڑا حادثہ ہی سمجھائے گا۔بہت سارے لوگ ملک سے باہر ہیں، ان کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں، وہ پاکستانی سیاست کو باہر بیٹھ کرحقائق دیکھنا شروع کردیتے ہیں، کہتے ہیں کہ اتنے بھی حالات خراب نہیں ہیں، لیکن جب وہ پاکستان میں رہیں گے تو پھر پتا چلے گا لوگ کس طرح رہ رہے ہیں، اگر مہنگائی، بجلی گیس کے بل نہیں سمجھا رہے تو پھر پتا نہیں کیسے سمجھیں گے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں