کوئٹہ(پی این آئی) وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاہے ملازمین کے مطالبات کی منظوری کے بعد خزانے پر10سے15ارب روپے اضافی بوجھ آئیگا، ہم کیوں ایسے فیصلے کریں جنکا بوجھ صوبہ برداشت نہ کرسکے؟ سرکاری ملازمین اگر اپنا کام درست انداز میں کرتے ہوئے حق ادا کریں تو ہم ایک
نہیں دو گنا تنخواہیں بڑھائیں گےلیکن ہم سب جانتے ہیں ملازمین کی بڑی تعداد اپنا کام ٹھیک سے نہیں کرتی، اگر سیاسی سکورننگ کے حوالے سے فیصلے کروں تو25کی بجائے 50فیصد الاؤنس دیکر نعرے بھی لگواسکتاہوں لیکن کیا یہ مستقل حل ہے؟ احتجاج کرنے والے سب لوگوں سے درخواست کرتاہوں کہ سنجیدیگی سے معاملات پر غور فکر کریں حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے چیزوں کو اچھی سمت کی طرف لیکر جائیں۔تفصیلات کے مطابق احتجاج کرنے والے سرکاری ملازمین کے نام اپنے ایک ویڈیو پیغام میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاکہ پاکستان معاشی حوالے سے بہت تندرست ملک ہے، ہمارا جی ڈی پی انتہائی کم ہے، بلوچستان پسماندہ صوبہ ہے جسکی اپنی ضروریات بہت مشکل سے پوری ہوتی ہیں، فنڈز کی کمی کیساتھ ساتھ صوبے کی ریونیو جنریشن سمیت ایسے اقدامات نہیں کئے جن سے صوبہ کما سکے، آج اگر ساحلی علاقے بنے ہوتے، بلوچستان کی بارڈر مارکیٹ بنی ہوتیں، انفراسٹرکچر بہترہوتا، انڈسٹریل زون بنے ہوتے، کاش ہمارے یہاں 20سال پہلے یونیورسٹیاں بنی ہوتیں تو آج بلوچستان کی صورتحال یکسر مختلف ہوتی، آج کورونا وائرس کے دوران صورتحال یہ ہے کہ بہت سے ممالک معاشی اثرات برداشت نہیں کر پارہے اور وہ ریفارمز لاکر کٹوتی کر رہے ہیں، ہم 22کروڑ آبادی کا ملک ہیں جسکے چیلنجز بہت زیادہ ہیں لیکن شاید ہم بھول چکے ہیں کہ کورونا وائرس بھی کوئی چیز ہے اور اسکے سماجی و معاشرتی اثرات ہیں؟ کورونا وائرس کو محض ایک وباء نہیں بلکہ اسکے حقائق دیکھنے کی بھی ضرورت ہے جنکی طرف ہم نہیں جارہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے بہت سے معاملات میں اقدامات کر رہی ہے، حکومت ساحلی پٹی، معدنیات کے شعبے کی بہتری کی طرف جارہی ہے،اداروں کو بہتر کرکے اخراجات کو کم کر رہی ہے، شفافیت کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں تاکہ عوام کے پیسے کو درست سمت، جگہ پر خرچ کیا جاسکے، اب تک 20ہزار افراد کو سرکاری
ملازمتیں دی گئی ہیں اور مزید بھی دی جارہی ہیں، ملازمین کے الاؤنسز، تنخواہیں بڑھائی ہیں صوبے کی 10فیصد آبادی سرکاری ملازم ہے، حکومت نے صرف سرکاری ملازمین ہی نہیں بلکہ دیگر شعبوں کے لوگوں کو بھی بہتر روزگار کے مواقع فراہم کئے ہیں۔وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم عوام کو کیا ریلیف دے رہے ہیں؟اگرہر سال چھ ماہ بعد یہی رونا روئیں کہ تنخواہیں اور الاؤنس بڑھیں تو مستقبل قریب میں عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکیں گے۔ گزشتہ دوسالوں کے دوران پنشن بل30ارب سے بڑھ کر 40سے50ارب ہوگیا ہے اور آئندہ دو سال بعد یہ 60ارب سے تجاوز اور پانچ سال بعد 100سے 120ارب ہوجائیگا،کیا ایک وقت ایسا آئے گا کہ حکومت تعلیم،صحت، سڑکیں ،ڈیم،سماجی بہبود، زمینداری کے لئے کچھ نہیں کریگی اور ہم صرف تنخواہیں پنشن،الاؤنس دیتے رہیں گے، ہمیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ہم برسر روزگار ہیں اور اچھی تنخواہ مل رہی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ایسا پیکج ہے جو آج کے دور سے مطابقت رکھتا ہے مگر نجی شعبے کی نسبت سرکاری ملازمین کو بہتر نتخواہیں مل رہی ہیں، جن میں انکا خاندان
اپنی گز ر بسر کر سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سیکرٹریٹ سمیت دیگر اداروں میں نتخواہیں اچھی ہیں، ایسے ایس ایس ٹی ٹیچر ہیں جو ایک سے ڈیڑھ لاکھ نتخواہ لیتے ہیں جبکہ اسی بلوچستان کا ایک بیٹی اور بیٹا جو نجی شعبے میں ٹیچر ہیں کو 15سے 20ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے،سرکاری ملازمین اگر اپنا کام درست انداز میں کرتے ہوئےحق ادا کریں تو ہم ایک نہیں دو گنا تنخواہیں بڑھائیں گے لیکن ہم سب جانتے ہیں ملازمین کی بڑی تعداد اپنا کام ٹھیک سے نہیں کرتی، ٹیچر سکول او ر ڈاکٹر ہسپتال نہیں جاتے، کئی سیکشن آفیسر ڈیوٹی پر نہیں جاتے،جب حکومت کاروائی کرنے لگتی ہے تو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتاہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی معیشت،ریونیو، مالی حالت کو کوئی نقصان ہوتا ہے تو سب سے زیادہ متاثر سرکاری ملازمین ہونگے اگر بجٹ کم ہوگا تو تنخواہیں،پنشن، الاؤنسز، ملازمین کی کم ہونگی پبلک اور سیاست دان بعد میں آئیں گے ہم کیوں ایسے فیصلے کریں جنکا بوجھ صوبہ برداشت نہ کرسکے اور انکا صوبہ سامنا نہ کر سکے ہم صرف سرکاری ملازمتیں دیں تو حکومت کے پا س ایک دن پیسے نہیں ہونگے اور دنیا بھر میں ایسا نظام کہیں نہیں ہے
اگر ہم سنجیدہ اور ہمارا کوئی اور سیاسی ایجنڈا نہیں ہے اورہم بلوچستان کی ترقی و نظام کو ٹھیک کرنا ہے تو ہمیں تمام پہلوؤں پر سوچنا پڑیگا اور ملازمین اسکا حصہ بنیں۔انہوں نے کہاکہ ملازمین کے مطالبات کا خزانے پر بوجھ 10سے15ارب روپے آئیگاکل تمام ملازمین کھڑے ہونگے تو ہمیں 20سے 25ارب اور دینے پڑ سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم اپنے آپ کو ایسی سمت میں لیکر جارہے ہیں جس سے لوٹنا بہت مشکل ہے اوریہ چیز نہ کسی ادارے، صوبے اور ملک کو ترقی دیگی میرا ذاتی کوئی شوق نہیں ہے کہ میں کسی تجویز پر کام نہ کروں اور سنجیدیگی نہ دیکھاؤں اور نہ ہی میری انا،سیاسی ضد ہے کہ کسی کی بات نہیں ماننی آج میں اس عہدے پر ہوں کل کوئی اور ہوگا لیکن ہم نے صوبے اور سب کی بہتری کے فیصلے کرنے ہیں تو چیزوں کو سنجیدیگی سے دیکھنا ہوگا اور صرف فیصلے ضرورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے سب کے لئے اجتماعی فیصلے کریں۔انہوں نے کہا کہ میں ملازمین سے التجا اور امید رکھتاہوں کہ ہمیں کچھ چیزوں کو ہٹ کر دیکھنا اور سوچنا چاہیے اور محنت صوبے کی ترقی اور کام کی بہتری کی جانب بڑھانی چاہیے اپنے اداروں کو بہتر انداز میں آگے لائیں استاتذہ، ڈاکٹر، آفیسر، کلرک سمیت تمام طبقات اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تو ہم صوبے کا ریونیو بڑھا
سکتے اور ضروریات پوری کر سکتے ہیں حکومت نے پہلی بار ملازمین کی بہتری کے لئے اقدامات کئے ہیں صوبے کے ہر ضلع میں جی او آر سسٹم بنا رہے ہیں تاکہ ملازمین کو گھر مل سکیں کوئٹہ میں افسران کے لئے گھر بنا رہے ہیں حکومت نے ہرلحاظ سے اقدامات کئے ہیں سیاسی حکومت کے طور پر ہمیں بھی توقع ہے کہ ملازمین بھی ہمارا ساتھ دیں اگر ہم نے ان تحریکوں کو سیاسی بنیادوں پر چلایا اور دوسرے لوگ اسکا فائدہ اٹھائیں یقینی طور پر اپوزیشن حکومت کو کمزور سے کمزور تر ہو کل کو ان لوگوں نے بھی کوئی چاند یہاں نہیں لگانے بلکہ صورتحال بد سے بد تر ہوسکتی ہے میں ملازمین سے درخواست کرتاہوں کہ وہ میرے لئے قابل احترام ہیں حکومت جام کمال خان کی اپنی ذاتی کوئی ملکیت ، کمپنی،فیکٹری نہیں ہے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اچھے ذہن سے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے سوچوں اور فیصلے کروں میرے لئے سیاسی فیصلہ کرنا آسان ہے اگر سیاسی اسکورننگ کے حوالے سے فیصلے کروں یہ پیسے میری جیب سے نہیں جائیں گے 25کے بجائے 50فیصد الاؤنس دیکر نعرے بھی لگوائے جا سکتے ہیں لیکن کیا یہ مستقل حل
ہے اس سے مشکلات بڑھیں گی اور پانچ سال بعد چیزیں ہاتھ سے نکل جائیں گی انہوں نے کہا کہ میں ان سب لوگوں سے درخواست کرتاہوں کہ جو سنجیدیگی سے معاملات پر غور فکر کرنا چاہتے ہیں چیزوں کو حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے چیزوں کو اچھی سمت کی طرف لیکر جائیں ہمیں سسٹم اور معیشت کر بہتر کریں،وسائل کا درست استعمال کریں میں امید کرتاہوں کہ ملازمین بلوچستانی اور پاکستانی کی طرح سوچیں اگر ہم نے کام نہیں کیا تو آنے والی نسلوں کو اچھا بلوچستان اور پاکستان دیکر نہیں جائیں گے اور انکی وجوہات میں بہت سے فیصلے ہونگے جنہیں ہمیں نے اپنے ہاتھوں سے ماضی میں کیا ہوگا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں