لاہو ر(پی این آئی) مسلم لیگ(ن)پنجاب کی سیکرٹری اطلاعات عظمی بخاری نے کہا ہے کہ فردوس امجد کی دوبارہ نوکری ہی ان کی شریف فیملی کیخلاف زبان درازی کے بعدہوئی ،عثمان بزدار کی فردوس خالہ کی زبان دن بدن کافی لمبی ہوتی جاتی رہی،عمران خان ان کو لگام ڈالیں ورنہ ہمیں لگام ڈالنی آتی ہے۔ اپنے بیان میں
انہوںنے کہاکہ تین سالوں سے سلطنت نیازیہ کے درباری چور چور کا شور مچارہے ہیں۔درباری اور حواری اسی چکر میں قوم کو ایکہزار ارب سے زائد کا چونا لگاچکے ہیں۔عثمان بزدار نے کس حیثیت سے اپنے پھپھا کو دوبارہ سپیشل برانچ کا ڈائریکٹر بھرتی کیا۔چیئر مین نیب کو رمضان شوگر مل کا گندا نالہ اور جاتی امراکی سڑک ہی نظر آتی ہے؟۔جعلی شراب لائسنس میں چیئر مین نیب عثمان بزدار کو این آر او دے چکے ہیں۔چیئر مین نیب نے وزیراعظم سے وزیر دفاع تک سب کو این آر او دے دیا ہے۔نیب صرف اب بنی گالہ کی لونڈی بن چکا ہے اس سے زائد کوئی کارکردگی نہیں۔ ڈسکہ پولنگ ، لڑائی بڑوں کی، بھگت عوام رہے ہیں، عوام کو ہیوی ویٹس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتےسپریم کورٹ الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت نہیں، صوبائی انتظامیہ پر بات کی، الیکشن کمیشن فیصلے میں رینجرز کا کوئی ذکر نہیں، عدالت عظمیٰ اسلام آباد (آئی این پی ) سپریم کورٹ میں این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ کے خلاف درخواست پر تحریک انصاف کے وکیل نے تصادم اور فائرنگ کی تفصیلات فراہم کر دیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ لڑائی بڑوں کی ہے اور بھگت عوام رہے ہیں۔ بدھ کو سپریم کورٹ میں این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ وکیل تحریک انصاف نے اپنے دلائل میں کہا کہ ضمنی الیکشن میں ہمیشہ ٹرن آٹ کم رہتا ہے، ضمنی الیکشن میں کم ٹرن آٹ معمول کی بات ہے، الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے ٹرن آٹ کی تفصیلات لیں۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو اعداد و شمارکی تصدیق کرنے کی ہدایت کر دی۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ کم ٹرن آٹ پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کی وجہ نہیں ہوسکتا، حلقے میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بھی خراب تھی، ایسے واقعات ہوتے ہیں، پورا الیکشن کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ این اے 75 ڈسکہ میں 2 ہیوی ویٹس کی لڑائی ہے، دونوں ہیوی ویٹس انا کے ساتھ لڑ رہے ہیں، عوام کو ہیوی ویٹس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ پی ٹی آئی وکیل نے فائرنگ کے واقعات کی تفصیلات عدالت کو فراہم کر دیں۔ عدالت نے کہا کہ جن دلائل کا حوالے دے رہے ہیں ان میں جیت کا تناسب متنازعہ ووٹوں سے کم تھا۔ وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی شکایت کا مرکز پنجاب حکومت کی ناکامی ہے، ضمنی الیکشن کے دوران رینجرز بھی موجود تھی۔ عدالت نے کہا الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت نہیں، صوبائی انتظامیہ پر بات کی، الیکشن کمیشن فیصلے میں رینجرز کا کوئی ذکر نہیں۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں