اسلام آباد (آئی این پی ) کنور محمد دلشاد سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان و چیئرمین نیشنل ڈیموکریٹک فانڈیشن نے الیکشن اصلاحات کے حوالے سے اپنے تجزیہ میں کہا ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے دھاندلی پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے لیکن یہ
راستہ اختیار کرنے کے لیے آئین میں ترمیم لازم ہے جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی سپریم کورٹ میں اپنا موقف پیش کر چکا ہے۔ کنور محمد دلشاد نے اپنے تجزیہ میں کہا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں بھارتی اپوزیشن جماعتوں کے شدید تحفظات ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں ایسی چپ خوفیہ طور پر لگا دی گئی ہے جس کے ذریعے اپریل 2019 کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرادیا گیا۔ پاکستان میں اگر یہ جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرو ایا گیا تو پاکستان میں بھی ہارنے والی پارٹی اس قسم کے الزامات لگا کر اس سسٹم میں عدم اعتماد کر دے گی جس کے اخراجات کا تخمینہ ایک کھرب لگایا گیا ہے۔ اگر یہ سسٹم بھی آر ٹی ایس کی طرح ناکام ہوگیا تو الیکشن کمیشن کے پاس ہنگامی طور پر متبادل نظام نہیں ہوگا اور قومی انتخابات ملتوی کرنے پڑ جائیں گے۔ پاکستان میں 40 فیصد ناخواندگی ہے اور بجلی کی سپلائی بھی ستر فیصد غیر یقینی ہے۔ اور اس سسٹم کو اختیار کرنے کے لیے ایک دن میں الیکشن کرانا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ 15کروڑ ووٹر کے لئے ایک دن میں میں انتخابات کرانا مشکل مرحلہ ہوگا۔ کنور محمد دلشاد نے کہا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے مضر اثرات کے بارے میں وزیراعظم پاکستان ، قومی اسمبلی کے سپیکر اور پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کو تفصیلی رپورٹ بھجوادی ہے
کیونکہ رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کی ناکامی کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال بے سود ہوگا اور بھارت بھی اس سسٹم کے متبادل انتظامات پر غور کر رہا ہے۔ کنور محمد دلشاد نے مزید کہا ہے کہ انٹرنیٹ ووٹنگ کا نظام دنیا کے کسی بھی ملک میں کامیاب نہیں ہے اور اس سسٹم میں رازداری پر سوالیہ نشان اٹھائے جائیں گے اور 70 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو انٹرنیٹ ووٹنگ کے دائرہ کار میں لانے کے لیے تقریبا 50 ارب روپے کے اخراجات درپیش ہوں گے اس کے باوجود بھی شفافیت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں