بیرون ملک سے گندم 2500 روپے اور اپنے کسان سے 1650 روپے فی من، قومی اسمبلی تجارت کمیٹی گندم کی قیمت کم مقرر کرنے پرسیخ پا ہو گئی

اسلام آباد(آئی این پی)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے گندم کی امداد ی قیمت کم مقرر کرنے پر برہمی کا اظہارکیا ہے۔چیئرمین کمیٹی سید نوید قمر نے کہا ہے کہ اگلے سال ملک میں پھر گندم کا بحران پیدا ہوگا ،گندم کی پیداوار میں کمی جبکہ درآمد میں اضافہ ہورہا ہے، گندم کی سپورٹ پرائس غیر حقیقی رکھی

گئی ، سندھ نے گندم کی امدادی قیمت 2ہزار روپے من مقرر کی، پنجاب نے 1800روپے اعلان کرکے اب دوبارہ 1650کر دی ہے، کسان پاگل ہے جو 1650 میں گندم فروخت کرے گا، بیرون ملک سے گندم 2500روپے فی من میں خریدی جاتی ہے ،مافیاز کا مفاد ہے کہ درآمدات ہوتی رہیں کیونکہ سبسڈی ملتی ہے، پرائس کنٹرول کے نام پر مہنگی گندم درآمد کی جارہی ہے ہم غیر ملکی کسانوں کو فائدہ دے رہے ہیں، مقامی کسانوں کو سبسڈی دینے کو تیار نہیں۔جمعرات کو قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نوید قمر کی سربراہی میںپارلیمنٹ ہاوس منعقد ہوا۔ اجلاس میں گندم کی درآمد کا معاملہ زیر بحث لایا گیا ۔ چیئرمین ٹریڈنگ کارپوریشن ڈاکٹر ریاض احمد نے کہا کہ 2.16ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کا ہدف تھا ،1.6ملین میٹرک ٹن ٹی سی پی اور 0.46 ملین میٹرک ٹن پاسکو نے درآمد کی۔ درآمدی گندم کی اوسط فی کلو 45.6روپے میں پڑی۔چیئرمین کمیٹی سید نوید قمر نے کہا کہ کیا اب ہم امپورٹ پر انحصار کریں گے باہر سے گندم منگوانے میں کچھ لوگوں کا ضرور انٹرسٹ شامل ہے ۔پاکستان میں گندم کی قلت پالیسیز کی وجہ سے ہے، کسانوں کیوجہ سے نہیں،حکومت نے جو مراعات دینی ہوتی ہیں مقامی کاشتکاروں کو دیں ،جو کپاس کیساتھ ہم نے کیا اب وہ گندم کیساتھ بھی کر رہے ہیں۔ درآمدی گندم مقامی گندم سے زیادہ مہنگی پڑتی ہے۔ پنجاب

میں 1650روپے گندم کے ریٹ کی منطق کیا ہے۔چیئرمین ٹی سی پی نے کہا کہ وزارت فوڈ سکیورٹی نے کہا ہے کہ اگلے سال میں بھی گندم کی قلت ہوگی ،اب اگست کیلئے 3لاکھ میٹرک ٹن کا ٹینڈر کیا گیا ہے ،گندم کی تمام شپمنٹ بروقت پہنچی، کسی کے ڈیمرج نہیں دینے پڑے ،1800روپے من گندم پڑی ہے، 7روپے فی کلو ٹرانسپورٹیشن کاسٹ آتی ہے۔اجلاس میں کپاس کا معاملہ زیر بحث لایا گیا ۔ٹیکسٹائل حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 2016سے کپاس کی پیداوار کم ہونا شروع ہوئی۔ اس سال 7.7ملین بیلز کپاس کی پیداوار ہوئی، پیداوار کم ہونے کی وجہ سے قیمتیں زیادہ ہو گئی ہیں۔ ٹیکسٹائل سیکٹر بہت بہتر کام کر رہا ہے۔ کمیٹی چیئرمین نویدقمرنے کہاکہ کورونا کے بعد انڈیا کی مارکیٹ بحال ہونے کے بعد ٹیکسٹائل انڈسٹری چلانے کیلئے کیا پلاننگ کی گئی ہے ،بجلی کی قیمتیں بہت جلد کم نہیں ہوں گی، پاس کی پیداوار بھی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔جس پر سیکرٹری تجارت نے جواب دیا کہ انڈسٹری میں تسلسل کیلئے بجلی کی قیمتوں پر سبسڈی دینی بہت ضرورت ہے ۔آئندہ بجٹ سے پہلے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بجلی پر سبسڈی کیلئے نظر ثانی کی اپیل کی ہے۔کمیٹی چئیرمین نے کہا کہ پاکستان کپاس کے ایکسپورٹر سے امپورٹر بن گیا، ایسے تو پاکستان کی ٹیکسٹائل سیکٹر میں مسابقت ختم ہو جائے گی۔ ہم کپاس برآمد کرنے کے بجائے اب درآمد پر انحصار کر رہے ہیں ۔کیا پاکستان کاٹن پیدا

نہ کرنے والے ممالک میں شامل ہونے جارہا ہے۔2006-07میں کاٹن کی پیداوار 1کروڑ تیس لاکھ گھانٹھیں تھی 2019-20 میں کاٹن کی پیداوار کم ہو کر 91 لاکھ بیلز پر آگئی۔کمیٹی نے ٹیکسٹائل سیکٹر میں ٹارگٹڈ سبسڈی کا پلان طلب کر تے ہوئے کہا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر میں جعلی انوائسز کے زریعے اربوں کے ریفنڈز دیئے جارہے ہیں۔ سبسڈی کے زریعے بھی اپٹما کو الگ فائدہ پہنچایا جارہا ہے۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں