کراچی(آئی این پی)مرکزی اطلاعات سیکرٹری پاکستان پیپلز پارٹی شازیہ عطا مری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت آئی ایم ایف کے سامنے لیٹ چکی ہیں اور وہ پاکستان کا ہر انچ ان کے پاس گروی رکھ رہی ہے اور عوام کو کو ہر روز مقروض بھی کر رہی ہے۔ منگل کو اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ چند روز قبل پی
ٹی آئی کی وفاقی کابینہ نے ایک بل پاس کرکے آئی ایم ایف کی طرف سے رکھے گئے گورنر اسٹیٹ بینک کو ہر قسم کی احتساب سے بری کردیا ہے۔ اس بل کے تحت گورنر اسٹیٹ بینک کو مکمل اختیار دیے گئے ہیں کہ وہ احتساب سے بری ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ہم اس پر بات کریں گے اور اس کے خلاف آواز بلند اور احتجاج بھی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور اس بل کو پارلیمان میں نہ لائے تو بہتر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ فراڈ کے ذریعے سینٹ چیئرمین انتخابات میں 7 ووٹوں کو خارج کیا گیا اس معاملے پر ہم عدالت میں پٹیشن دائر کریں گے اس حوالے سے سینٹ سیکریٹری کوتمام ضروری کاغذات مہیا کرنا چائیے۔ شازیہ مری نے کہا کہ پی ڈی ایم کے پاس استعفوں سمیت تمام آپشن موجود ہیں اور استعفیوں کا آپشن بھی پی ڈی ایم لاحہ عمل کا حصہ ہے اور آج پی ڈی ایم کے جاری اجلاس میں تمام آپشن پر نظرثانی کی جا رہی ہے اور پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کی مشاورت کے بعد جلد فیصلے کا اعلان بھی کیا جائے گا۔ ان باتوں کا اظہار آج انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کو احتساب سے بری کرنے کے لیے بل پاس کر دیا ہے اس پر بڑی تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ شاید پاکستان کو نئے زمانے کی ایسٹ انڈیا کمپنی بنانا جا رہی ہے
اور اسکا وائسرائے آئی ایم ایف کی طرف رکھا گیا گورنر اسٹیٹ بینک ہے۔ شازیہ مری نے کہا کہ نااہل پی ٹی آئی حکومت نے کابینہ کے بل ذریعے اب ملکی تمام معاشی پالیسیوں کو آئی ایم ایف کے سپرد کرنے جارہی ہے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں اورحکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بل کو واپس لے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے ایسی فرمائشیں پچھلی حکومتوں سے بھی کی مگر پچھلی حکومتوں نے ایسی فرمائشوں کو مسترد کر دیا تھا لیکن پی ٹی آئی حکومت آئی ایم ایف کے تمام شرائط مان رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس بل کے تحت اب نیب اور ایف آئی اے بھی اسٹیٹ بینک کے گورنر کو احتساب کے حوالے سے ہاتھ نہیں لگا سکتا اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کا بھی کوئی نمائندہ شامل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس عمل کی سخت مذمت کرتے ہیں بہت خطرناک بات ہیاور بتایا کہ گورنر کی تعیناتی صدر پاکستان کرتا ہے اور مدت ملازم پانچ سال اور مزید پانچ سال کی توسیع بھی دی جاسکتی ہے یہ بھی ایک خطرناک بات ہے۔ شازیہ مری نے کہا کہ ہماری نظر میں یہ مدت ملازم پانچ سال نہیں ہونی چاہیے اور اس میں میں توسیع بھی نہیں کرنی چاہیے۔ شازیہ مری نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت شروع سے آج تک ڈراما بازی کر رہی ہے اور آج پھر حکومتی وزرائ نے سبسڈی کے نام پر نیا ڈرامہ رچایا ہے جبکہ دو ڈھائی سالوں سے یہ لوگ عوام کو ریلیف دینے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج وفاقی وزرا کی پریس کانفرنس ڈراما بازی اور جھوٹ پر مبنی تھی جس میں انہوں نے عوام کے ساتھ سبسڈی کا نیا ڈرامہ شروع کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت مہنگائی عروج پر ہے اور آئی ایم ایف کے پلان کے تحت مزید تین روپے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کا سن رہے ہیں جونہایت ہی قابل مذمت عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اب ملک کو آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چلانا بند کریں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے وفاقی وزراء کی پریس کانفرنس میں کسی وزیر نے صاف و شفاف الیکشن پر بات کی اور صاف اور شفاف الیکشن کی دھجیاں اس وقت بکھیری گئیں جب سینیٹ چیئرمین انتخابات کے دوران وجاہت نامی افضل نامی شخص کو 11 مارچ کو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے سیکورٹی کے طور پر تعینات کیا گیا پھر اس شخص دوسرے روز ٹاس کے تحت کام لیا گیا۔ پھر دوسرے روز سینٹ ہال میں سے نصب کی گئی کیمریں ملے۔ انہوں نے کہا کہ تو یہ ہے صاف شفاف الیکشن کے دعوے جو پی ٹی آئی حکومت نے کیے اس پر حکومت کو شرم آنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت قائم مقام چیئرمین مظفر حسین شاہ نے جو بعد میں پریزائیڈنگ افسر بنے اس چیز کوئی خاص توجہ نہیں دی اور انہوں نے پہلے سینیٹر رضا ربانی اور فاروق نائیک کو سننا تک پسند نہیں کیا لیکن جب ان دونوں نے اپنے موقف کو ضد کرکے رکاڈ کروایا تو حکومت کے وزراء کی جانب سے
بہت مایوس کن رویہ دیکھنے کو ملا یوں لگ رہا تھا کہ وہ کیمروں کی موجودگی کے معاملے کی دفاع کرتے نظر آئے۔ اس موقع پر سینیٹر قرۃالعین نے کہا کہ مظفر علی شاہ کو بحیثیت پریذائیڈنگ آفیسر رولز کی الف ب بھی پتہ نہیں تھی اور الیکشن کمیشن کے ہدایات نامے کے مطابق امیدوار کے خانے میں مہر لگانے کا ذکر تھا اور ہمارے لوگوں نے اس کے مطابق کے مہر لگائی مگر مظفر علی شاہ نے کہا اگر انکی رولنگ پسند نہیں ہے تو انہوں نے اپوزیشن کو ٹرائبیونل میں چلی جانا کا مشورہ دیا۔ سینیٹر قرت العین نے بتایا کہ انہیں تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ اس الیکشن کی کوئی ٹریبونل بھی نہیں ہوتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مظفر علی شاہ کی رولنگ بد نیتی پر مبنی تھی اور انہوں نے اہنی رائے کے مطابق سات ووٹ سید یوسف رضاگیلانی کی رد کئے جس میں انہوں نے کسی رولز کا حوالہ نہیں دے سکتے تھے اور کسی رولز کے تحت وہ 7 ووٹ بھی رد نہیں کی جاسکتی تھے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان کے عبدالقادر سے 70 کروڑ روپے وصول کرکے ان کو سینیٹ کے انتخابات میں جیتوایا اور بعد میں پی ٹی آئی میں بھی شامل کروا دیا۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں