اسلام آباد(پی این آئی)وفاقی شریعت کورٹ کے سابق چیف جسٹس آغا رفیق احمد خان ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن فل کورٹ آرڈر کے ذریعے سرکاری مرسڈیز کار گھر لے گئے ہیں، حالانکہ حکومت نے انہیں یہ گاڑی دینے سے انکار کر دیا تھا۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق اس وقت کے سیکریٹری
قانون بیرسٹر ظفر اللہ خان، جنہیں نون لیگ کی گزشتہ حکومت میں وزیراعظم کا معاون خصوصی بنا دیا گیا تھا، نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے جج صاحب کی مرسڈیز کار فراہم کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ آغا سے کہا گیا کہ صدارتی آرڈر کے تحت، وہ اور دیگر ججز کو صرف 1800 سی سی کار رکھنے کی اجازت ہے اور اس لئے انہیں 2400 سی سی مرسڈیز کار نہیں دی جا سکتی۔ یہ گاڑی فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس کے پروٹوکول فلیٹ میں شامل تھی۔بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ آغا نے فل کورٹ کا اجلاس طلب کیا جس میں انہیں حکومت کی منظوری کے بغیر ہی مرسڈیز کار جبکہ باقی ججز کو 1800 سی سی کار دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ظفر اللہ نے کہا کہ جب انہیں اس حقیقت کا بتایا گیا تو انہوں نے یہ معاملہ کابینہ ڈویژن کے سامنے اٹھایا تاکہ آغا سے یہ مرسڈیز کار واپس لی جا سکے۔فروری 2014 میں شائع خبر کے مطابق اس وقت کے فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس آغا رفیق بیک وقت پنشن اور فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس کی تنخواہ وصول کر رہے تھے۔مقامی انگریزی اخبار میں یہ خبر 18 فروری کو شائع ہوئی تھی جس کا نوٹس لیتے ہوئے اے جی پی آر نے یہ گتھی سلجھانا شروع کر دی کہ آغا صاحب کس طرح بیک وقت پنشن اور تنخواہ وصول کر رہے تھے۔جسٹس آغا کا پنشن پیمنٹ آرڈر دیکھ کر انہیں معلوم ہوا کہ جسٹس آغا اپنے دو سالہ عہدے کی معیاد مکمل کرنے کے بعد 4 جون 2011 کو چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے، تاہم انہیں عہدے میں تین سال کی توسیع دی گئی جو جون 2014 تک جاری رہنا تھی۔ تاہم، جسٹس آغا نے نئے عہدے کا حلف نہیں اٹھایا۔4 جون 2011 کے بعد انہوں نے پنشن لینا شروع کر دی اور ساتھ ہی جسٹس آغا کو چھٹیوں (Leave Encashment) کے عوض 32 لاکھ روپے کی یکمشت ادائیگی کی گئی۔ یہ رقم ان کی 6 ماہ کی تنخواہ کے مساوی تھی جو چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ کی حیثیت سے عہدے کی پہلی معیاد مکمل کرنے پر تھی۔جب تنخواہ کے ساتھ پنشن ملنے جیسی مراعات کے حوالے سے آغا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا تھا کہ یہ رعایت صرف انہیں حاصل نہیں، ان کے پیش رو جسٹس خیری اور ایک اور جج جسٹس فدا کو بھی بیک وقت پنشن اور تنخواہ ملتی رہی۔ جب ان سے پوچھا گیا وہ بیک وقت کس طرح تنخواہ اور پنشن وصول کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہا تھا کہ جس نے منظوری دی ہے ان سے جا کر پوچھیں۔ظفر اللہ خان کے مطابق، ریٹائرمنٹ کے بعد آغا نے فیڈرل شریعت کورٹ اور ساتھ ہی سندھ ہائی کورٹ سے پنشن وصول کرنا شروع کر دی۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کیس دائر کیا کہ آغا کی ایک پنشن رکوائی جا سکے لیکن سندھ ہائی کورٹ نے حکومت کے آرڈر پر حکم امتناع جاری کر دیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری بھی جب ریٹائر ہوئے تھے تو وہ اپنے ساتھ بلیٹ پروف مرسڈیز کار لے گئے تھے، جس پر تنازع بھی پیدا ہوا تھا۔ حکومت چاہتی تھی کہ مرسڈیز واپس لی جائے لیکن معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ تک پہنچا، جس نے حکم امتناع جاری کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس کو 1800 سی سی کار کی اجازت تھی لیکن نواز شریف حکومت نے ناقابل ِ توجیہہ وجوہات کی بنا پر چیف جسٹس کو 2400 سی سی مرسڈیز کی اجازت دیدی۔سرکاری پالیسی کے مطابق، ججوں کو اجازت ہے کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ پر گاڑی کم قیمت پر (Depreciated Cost) پر خرید سکتے ہیں۔ ایک اور کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد اضافی مراعات کی منظوری فل کورٹ کے ذریعے حاصل کرلی۔ بعد میں، وزارت قانون اور فنانس ڈویژن کی ہچکچاہٹ کے باوجود وفاقی حکومت نے ان کیلئے یہ مراعات منظور کر لیں۔ سرکاری فائلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وزارت قانون اور وزارت خزانہ نے پہلے اس تجویز کی مخالفت کی، یہ تجویز پہلے وزارت قانون کو سپریم کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار نے بھیجی تھی۔ اگست 2018 میں عمران خان کے وزیراعظم بننے سے چند روز قبل، وزارت قانون نے وزیراعظم آفس کیلئے سمری بھیجی جس میں 7 جولائی 2018 کے سپریم کورٹ کے فل کورٹ اجلاس کا حوالہ دیا گیا۔سمری میں یہ واضح کیا گیا کہ فل کورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ چیف جسٹس کو ریٹائرمنٹ کے بعد سہولت فراہم کی جائے اور ان کیلئے ایک ایڈیشنل پرائیویٹ سیکریٹری کی فراہمی کی منظوری دی تھی جس کے اخراجات سپریم کورٹ کے بجٹ سے ادا کیے جائیں گے۔وزارت قانون نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ کسی وفاقی سیکریٹری یا بائیس گریڈ کے افسر کو ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری اخراجات پر اسسٹنٹ پرائیویٹ س یکریٹری (گریڈ 16) فراہم کیا جائے لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے بار بار مطالبہ آ رہا ہے کہ صدارتی آرڈر دوم 1997 میں مجوزہ ترمیم کی جائے۔جب یہ معاملہ وزارت خزانہ کے پاس پہنچا تو اس کے ریگولیشن ونگ نے سپریم کورٹ کی تجویز کی مخالفت کی اور نشاندہی کی تھی کہ اضافی اسٹاف (ایڈیشنل پرائیوٹ سیکریٹری) کی سہولت صرف حاضر سروس ملازمین، جو جوائنٹ سیکریٹری، ایڈیشنل سیکریٹری یا پھر سیکریٹری رینک پر ہوں، کو دی جاتی ہے تاہم ریٹائرڈ لوگوں کیلئے ایسی کوئی سہولت نہیں ہے۔فائل میں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت پہلے ہی اعلی عدلیہ کے ججوں بشمول چیف جسٹس پاکستان کو ریٹائرمنٹ کے بعد شاندار پنشن اور دیگر سہولتیں فراہم کرتی ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ نجی مقاصد کیلئے اضافی اسٹاف حاصل کرے کیونکہ یہ سہولت صرف ملازمت کرنے والے افسران کیلئے ہے۔اگر تجویز منظور کی گئی اور فنانس ڈویژن نے اس کی توثیق کی تو اس کے نتیجے میں دیگر اداروں (بشمول آئینی اداروں جن میں فیڈرل شریعت کورٹ، ہائی کورٹس، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر نیشنل اسمبلی، چیئرمین نیب وغیرہ) سے بھی ایسے مطالبات آئیں گے اور ساتھ میں اعلی عدلیہ کے دیگر ریٹائرڈ جج صاحبان بھی ان میں شامل ہوں گے۔ فائل میں لکھا ہے کہ ایسی صورتحال میں وفاقی حکومت مطالبات کو مسترد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔متعلقہ سیکشن افسر نے بات مکمل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کی رائے ہے کہ فنانس ڈویژن کو ایسی تجویز کی حمایت نہیں کرنا چاہئے۔ جب یہ فائل سیکریٹری خزانہ کے پاس پہنچی تو انہوں نے فائل پر لکھا: بات کریں اور اس کے بعد یہ فائل انہوں نے واپس ایڈیشنل فنانس سیکریٹری (ریگولیشن) کو بھجوا دی۔جب ان کی بات ہوگئی تو وزارت خزانہ نے یو ٹرن لیا اور ایڈیشنل فنانس سیکریٹری (ریگولیشن) ، جنہوں نے پہلے سپریم کورٹ کی تجویز منظور نہ کرنے کی تائید کی تھی، نے بعد قلابازی کھاتے ہوئے سیکریٹری فنانس کے ساتھ اپنی ملاقات کا حوالہ پیش کیا۔اپنے اصل موقف سے ہٹ کر وزارت خزانہ نے بالآخر یہ کہا کہ وزارت کو اس تجویز پر کوئی اعتراض نہیں کہ چیف جسٹس پاکستان کو ریٹائرمنٹ کے بعد اضافی سہولت فراہم کی جائے۔ اس کے بعد سیکریٹری خزانہ کو تائید کا مسودہ بھیجا گیا جنہوں نے اس کی 18 ستمبر 2018 کو منظوری دیدی۔اگلے ہی دن وزارت خزانہ نے وزیراعظم کو بتایا ہے کہ وزارت کو تجویز پر کوئی اعتراض نہیں۔ یہ عمران خان کی حکومت تھی جس نے 2018 میں صدارتی آرڈر دوم 1997 (جس میں سپریم کورٹ کے ججوں کو دی جانے والی چھٹیوں، پنشن اور سہولتوں کی بات کی گئی ہے) میں ترمیم کی تھی تاکہ جسٹس ثاقب نثار کو چند ماہ بعد ان کی ریٹائرمنٹ پر ایڈیشنل پرائیوٹ سیکریٹری (گریڈ 16) کی سہولت فراہم کی جا سکے۔وزارت خزانہ نے کے مطابق، اس اضافی سہولت کی فراہمی کے علاوہ، چیف جسٹس پاکستان کو ریٹائرمنٹ کے بعد مندرجہ ذیل سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں: ) کم قیمت (Depreciated Value) پر سرکاری گاڑی خریدنے کی سہولت، ) تنخواہ کا 85 فیصد حصہ بطور پنشن -اس وقت ان کی پنشن 10 لاکھ روپے ماہانہ بنتی ہے)، ) تین ہزار مفت لوکل کالز ماہانہ کے ٹیلی فون بل کی ادائیگی، ) دو ہزار یونٹس ماہانہ مفت بجلی کی فراہمی، ) پچیس ہیکٹو میٹرز یونٹس ماہانہ مفت گیس کی فراہمی، ) پانی کی مفت فراہمی، ) ماہانہ تین سو لٹر پٹرول کی فراہمی، ) ایک ڈرائیور اور ایک اردلی یا پھر وہ چاہیں تو ڈرائیور اور اردلی کی تنخواہ اور انہیں ملنے والے وہ تمام الائونسز اور سہولتوں کو ملا کر اسپیشل اضافی پنشن وصول کر سکتے ہیں ۔ ) ریٹائرڈ جج کو تاحیات مقامی پولیس کی طرف سے چوبیس گھنٹے کیلئی سیکورٹی گارڈ فراہم کیا جائے گا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں