لاہور(پی این آئی)پنجاب میں ضمنی انتخاب کا سیاسی بخار ابھی کسی طور اترنے میں نہیں آرہا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ فروری کے وسط میں ہونے والے ڈسکہ کے حلقہ این اے 75 کے انتخاب کو الیکشن کمیشن نے دھاندلی کے الزامات اور کمیشن کے عملے کے کئی گھنٹے غائب رہنے کے بعد کالعدم قرار دے دیا تھا۔اب
دوبارہ 18 مارچ کو اس ضمنی الیکشن کی تاریخ رکھی گئی ہے۔ ایک ہی مہینے بعد ہونے والے اس انتخاب میں مگر سیاسی منظر نامے پر کافی تبدیلیاں وقوع پزیر ہوچکی ہیں۔پنجاب کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز 20 مہینے جیل کاٹنے کے بعد ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔ اور وفاقی سطح پر حکومت سینیٹ کی اسلام آباد کی سیٹ پر یوسف رضا گیلانی کی صورت میں ایک بڑا اپ سیٹ دیکھ چکی ہے۔ چونکہ حمزہ شہباز بیس مہینے سے جیل میں تھے تو مسلم لیگ ن کی سیاسی جدوجہد مریم نواز ہی دیکھ رہی تھیں۔اب البتہ صورت حال مختلف دکھائی دے رہی ہے، حمزہ شہباز نے جیل سے باہر نکلتے ہی اپنی سیاسی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔پنجاب میں بزدار سرکار کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اپنے تمام راہنماؤں کے ساتھ حمزہ شہباز کے ساتھ ایک طویل ملاقات بھی کر چکے ہیں۔سیاسی مبصرین کے مطابق اپنے والد اور ملک کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی طرح حمزہ شہباز بھی مفاہمت کی سیاست کے قائل ہیں جبکہ مریم نواز نے اپنے والد نواز شریف کے بیانیے کا جھنڈا اٹھایا ہوا ہے جسے قدرے سخت گیر سیاسی موقف سمجھا جاتا ہے۔ تو ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حمزہ شہباز کی رہائی کے بعد ن لیگ کی سیاسی حکمت عملی اب کیا ہوگی؟اس کا ایک جواب حمزہ شہباز نے خود دے دیا ہے جب انہوں نے پیر آٹھ مارچ کو ایک اجلاس کی صدارت کی جو کہ 18 مارچ کو ہونے والے ڈسکہ کے ضمنی انتخاب سے متعلق تھا۔
حمزہ شہباز کے ترجمان عمران گورایا نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’یہ خبر درست ہے کہ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کی مہم اب حمزہ شہباز ہی دیکھیں گے۔ انہوں نے انتخابی مہم کو ٹیک اوور کر لیا ہے۔ اس حوالے سے سیالکوٹ کے لیگی رہنماؤں جن میں مقامی ایم این ایز اور ایم پی ایز بھی شامل تھے کو بلا کر ذمہ داریاں سونپ دی ہیں۔ بلکہ لاہور سے اس انتخابی مہم میں کون کیا رول ادا کرے گا اس کا فیصلہ بھی حمزہ شہباز ہی کریں گے۔‘خیال رہے کہ اس سے پہلے ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں مریم نواز نے انتخابی مہم چلائی تھی اور الیکشن سے قبل اور بعد میں خود بھی وہ ڈسکہ گئیں تھیں۔تو کیا حمزہ شہباز کے واپس سیاسی میدان میں آنے سے مریم نواز کا رول اب محدود ہو گا؟ مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔’ہماری جماعت کی لیڈرشپ جیلوں میں ہے اور مرکزی لیڈر کا ایک رول ہوتا ہے مریم نواز
اصل میں اپنے والد، پارٹی کے تاحیات قائد نواز شریف کی نمائندگی کرتی ہیں۔ حمزہ شہباز اور شہباز شریف کے جیل میں ہونے کی وجہ سے ان پر کام کا بوجھ زیادہ تھا۔ اور ویسے بھی پنجاب میں حمزہ نے 2018 کے انتخابات میں بہت کام کیا ہے ان کی پنجاب کی انتخابی سیاست میں گرفت بھی ہے۔ تو ایسے میں اس سے تاثر لینا کہ یہ کوئی جماعت کے اندر سیاسی کشمکش کی صورت حال ہے ایسا کچھ نہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ وہ خود پنجاب کے صدر رہ چکے ہیں اور اس ضمنی الیکشن کو دیکھیں گے جیسے وہ پہلے وہاں موجود تھے۔’ہم نے ان چوروں کو الیکشن چوری نہیں کرنے دیا تھا۔ مرکز میں ابھی چیئرمین سینیٹ کا الیکشن ہو رہا ہے تو مریم نواز پی ڈی ایم اور مرکز کی سیاست کو دیکھ رہی ہیں تو حمزہ ضمنی انتخابات کے معاملے کو دیکھیں گے یہ ایک سادہ سی بات ہے اس کو خواہ مخواہ پیچیدہ نہ بنایا جائے۔ جہاں تک جماعت کے بیانیے کا تعلق ہے
تو وہ اب سب پر واضح ہو چکا ہے کہ بیانیہ نواز شریف کا ہی چلے گا کسی کو اس میں شک نہیں ہونا چاہیے ایسے میں یہ جان بوجھ کر دراڑ کی خبریں مشہور کی جاتی ہیں۔‘مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ یہ گرم سرد کی سیاست مسلم لیگ ن کا اب لازمی جزو ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے نواز شریف اور شہباز شریف کی سیاست دیکھیں تو وہ بھی ہمیشہ ایسی ہی رہی ہے۔’ان کا اپنا اپنا طریقہ ہے لیکن یہ دونوں بھائی ہمیشہ چلے اکھٹے ہی ہیں چاہے کسی بات پر کتنا بھی اختلاف کیوں نہ ہو۔ اور جو مجھے آگے نظر آرہا ہے تو مریم اور حمزہ کی سیاست بھی کچھ ایسی ہی ہو گی۔ یہ ہمیں تو بالکل واضح تھا کہ جب بھی حمزہ باہر آئیں گے وہ اپنی کہانی کو وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے انہوں چھوڑی تھی۔‘
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں