اسلام آباد (آئی این پی) کیاعمران خان کی الیکشن کمیشن پر تنقید توہین عدالت کی زد میں آتی ہے؟ حامد میر نے سوال اٹھا دیا، جمعرات کی شام وزیراعظم عمران خان نےقوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ طریقہ کار کے تحت کرانے کے لیے ہم نے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا لیکن پارلیمنٹ
نے ہماری حمایت نہ کی تو سپریم کورٹ گئے، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اوپن بیلٹ کی مخالفت کی، وزیراعظم نے کہا کہ ماضی میں (ن )لیگ اور پیپلز پارٹی کہتے رہے کہ سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوں،( ن) لیگ اور پیپلزپارٹی نے خود کہا کہ سینیٹ الیکشن میں پیسہ چلتاہے۔ دونوں جماعتوں نے اوپن بیلٹ کیلئے میثاق جمہوریت پردستخط کیے،وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جج صاحبان نے بھی کہاسینیٹ الیکشن میں پیسہ چلتاہے۔ عدالت میں سب نے اکٹھے ہو کر کہا کہ خفیہ بیلٹ ہونا چاہیے۔ انہی پارٹیوں نے پہلے کہا تھا کہ اوپن بیلٹ ہونا چاہیے۔عمران خان نے کہا کہ 40 سال سے سینیٹ الیکشن میں پیسہ چل رہا ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے لیڈرشپ پیسے کے ذریعے سینیٹ میں آتی ہے۔ 2018 میں ہمارے20ممبران نے پیسے لے کرووٹ بیچے۔ ہم نے پیسے لینے والے 20 ممبران کو پارٹی سے نکالا۔عمران خان نے کہا کہ ان کوخوف تھا اب میں ان کے کرپشن کیسز پر آگے بڑھوں گا۔ یہ کیسز پرانے ہیں ہم نے نہیں بنائے۔ کہا تھا احتساب ہوگاتوسب اکٹھے ہوجائیں گے۔ پریشر ڈال رہے تھے میں بھی مشرف کی طرح این آراو دے دوں۔ ان کاون پوائنٹ ایجنڈا مجھے این آراو کیلئے بلیک میل کرنا ہے۔ اوپن بیلٹ کا مطالبہ کرنے والے خفیہ بیلٹ کیلئے اکٹھے ہوگئے۔ ان کااصل مقصد این آر او کیلئے اعتماد کے ووٹ کی تلوار لٹکانا ہے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں