لاہور (آن لائن) وزیراعظم کی جانب سے 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں خریدوفروخت کے تحقیقات کیلئے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی میں پیش ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے یہ کمیٹی خودقابل تفتیش ہے،
یہ کیا تفتیش کرے گی، عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کے 20ارکان فی ایم پی اے 5کروڑ ایک ارب روپے میں بک گئے، یہ پوری پارٹی ہی قابل تفتیش ہے اس پارٹی اور اس کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے ایک ایسی کمیٹی بنائی ہے جو منتخب سینیٹرز کو بلارہی ہے ان سینیٹرز کو بلا رہی ہے جن کو ممبران صوبائی اسمبلی نے منتخب کیا ہے۔ سینیٹرز کی جیت کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا ہے اس کمیٹی میں ایک نامنتخب نمائندہ بھی ہے۔ کمیٹی کا دوسرا ممبرمخصوص نشست پر منتخب ہوکر آیا ہے ایک نان الیکٹڈ کمیٹی کیسے منتخب ارکان سینیٹ کو بلا سکتی ہے۔ یہ سینیٹ کی توہین ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں کہتا ہوں کہ وزیراعظم قوم پر مسلط کیے گئے اور سلیکٹڈ وزیراعظم ہیں جس کو کوئی قانونی حق حاصل نہیں ہے اس کا مینڈیٹ جعلی ہے تو اس کی کمیٹی کی کیا حیثیت ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں دو چیزوں کی وجہ سے یہاں آیا ہوں ایک طرف جماعت اسلامی احتساب کی بات کرتی ہے اور اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کرتی ہے۔ میں اس لئے کمیٹی میں پیش ہونے آیاہوں تاکہ لوگوں کوپتہ چلے کہ جماعت ہر فورم پر احتساب اور محاسبے کیلئے تیار ہے۔ 25فروری کو اخبارات اور ٹی وی میں نوٹس لیک کیا گیا جس سے یہ کمیٹی انکاری ہے۔ میڈیا پر میرا نام
اور میری تصاویر چلتی رہی ہیں جس کوجوڑا جارہا ہے کہ یہ کم ووٹوں سے کس طرح سینیٹر منتخب ہوگیا۔ یہ کردار کشی ہے یہ بہت بڑا جھوٹ ہے، یہ ایک بہت بڑاگھنائونا جرم ہے جو ان لوگوں نے کیا ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ کمیٹی میں شامل لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ جب میں سینیٹر منتخب ہوا تو اس وقت خیبرپختونخوا اسمبلی میں کتنے ارکان تھے۔ ان کو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی سے کتنے سینیٹرز نے منتخب ہونا تھا اگر یہ لوگ یہ معلومات چیک کرلیتے تو ان کو مجھے نہ بلانا پڑتا۔ یہ لوگ میرے اثاثے دیکھ لیتے یا میری جماعت کے اثاثے دیکھ لیتے۔ میری جماعت کے سربراہ کے اثاثے دیکھ لیتے یا میری جماعت کی تاریخ دیکھ لیتے تو ان کو پتہ چل جاتا کہ جماعت اسلامی کا کوئی لیڈر اس طرح کے کاموں میں ملوث نہیںہوتا۔ انہوں نے کہاکہ سینیٹ کے انتخابات میں خریدوفروخت کا ایشو بالکل واضح ہے خودوزیراعظم نے کہاہے کہ ان کے جماعت کے 20ایم پی ایز ایک ارب روپے میں فروخت ہوگئے، کمیٹی کوچاہیے کہ سب سے پہلے وزیراعظم کو بلائے اس کے بعد ان 20ایم پی ایز کو بلائے کیونکہ ان 20 ایم پی ایز نے کہا ہے کہ ان کو یہ پیسے اسد قیصرکے گھر پر پرویز خٹک کے ذریعے پی ٹی آئی کے نامزد سینیٹرز نے دئیے۔ انہوں نے کہاکہ بکے بھی پی ٹی آئی والے ہیں خریدنے والا بھی پی ٹی آئی کا ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ میرا
مطالبہ ہے کہ آغاز وزیراعظم، اسد قیصر، پرویز خٹک، 20ایم پی ایز اور پارٹی کے لوگوں سے کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ ن کے رہنما راجہ ظفر الحق جب چیئرمین کے انتخابات کیلئے کھڑے تھے ان کی اکثریت کو اقلیت میں کیسے بدل دیا گیا اور پھر جب عدم اعتماد کی تحریک آئی حاصل خان بزنجو کھڑے ہوئے تو ان کی اکثریت کو اقلیت میں کیسے بدلا گیا اس حکومت نے یہ کیا ہے انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی نے سینیٹ کے اندر پیسے کا لین دین کیا اور اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا گھنائونا کام کیا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ اب جن سینیٹرز کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ جاری کیے ہیں ان میں دوہری شہریت والے،پانامہ پیپرز والے، سگریٹ مافیا، شوگر مافیاسمیت تمام مافیاز موجود ہیں۔ حکومت خود خریدوفروخت والوں کو اہمیت دیتی ہے، نظریاتی کارکن کو اہمیت نہیں دیتی۔یہ خود خریدوفروخت کو پروموٹ کرنے والے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ووٹوں کی خریدوفروخت کے حوالے سے تحقیقات کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی میںعدالتی کمیشن بننا چاہیے اس کمیشن کو چاہیے کہ سب سے پہلے وزیراعظم اور 20ایم پی ایز اور جس جس کو ضروری سمجھے کمیشن اپنے پاس بلائے۔ وہ کمیشن سینیٹ میں دو بار جو کچھ ہوا اس کی بھی تحقیقات کرائی جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی میں کئی فارورڈ بلاک بن چکے
ہیں۔ پی ٹی آئی میں ایک بغاوت ہے اور نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ کل کے انتخابات میں بدترین شکست تحریک انصاف کی منتظرہے اس لئے یہ دوسروں کے اوپر ملبہ ڈال رہے ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کی بنائی گئی کمیٹی نے جو نوٹس جاری کیا ہے اور اس کے ذریعے میری اور میری جماعت کی کردار کشی اور الزام تراشی کی گئی ہے اس پر قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہوں ایک اور سوال کے جواب میں سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ 2018ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی اور اے این پی اتحادی تھے 7ووٹ جماعت اسلامی کے تھے اور 5 ووٹ اے این پی نے دئیے تو میں 12ووٹوں سے سینیٹر منتخب ہوا یہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ پر موجود ہے اور اس کے بھی ثبوت ہیں کہ اے این پی نے مجھے ووٹ دئیے۔ اس کی وضاحت میں ایسے کرتا ہوں کہ اے این پی کے امیدوار کو پانچ ووٹ ملے تو وہ منتخب نہ ہوسکا تو سینیٹ انتخابات کے قانون کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے اس میں دوسرا نام کس کا ہے تو دوسرا نام میرا تھا جس کی وجہ سے اے این پی کے پانچ ووٹ مجھے ٹرانسفر ہوگئے۔ اس طرح مجھے پتہ چل گیا کہ 7 ووٹ جماعت اسلامی کے تھے اور5ووٹ اے این پی کے تھے۔ انہوں نے کہاکہ پانامہ پیپرز کے حوالے سے سپریم کورٹ میں زیر التواء کیس کے حوالے سے ہماری چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ
پانامہ پیپرز میں شامل 336افراد کیخلاف کارروائی کرکے ان قومی مجرموں کو کیفر کردار اور کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے مطالبہ کیا کہ کمیٹی میڈیا کو کارروائی کوریج کی اجازت دے لیکن کمیٹی نے میڈیا کو اجازت نہیں دی۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں