احسان اللہ احسان کے فرار ہونے کے ذمہ دار فوجی افسران کیساتھ کیا سلوک ہوا؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے خاموشی توڑ دی

راولپنڈی (پی این آئی) پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان میجر بابر افتخار کا میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ 11 کان کنون سے متعلق چند افراد کو حراست میں لیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گذشتہ دنوں ہزارہ برادری پر ہونے والے حملے کے حوالے سے اہم

گرفتاریاں کی گئی ہیں تاہم اس سلسلے میں مزید معلومات نہیں دی جا سکتیں کیونکہ ابھی مزید کارروائی ہونا باقی ہے البتہ اس کے متعلق بھی اہم اعلان جلد کیا جائے گا۔بچے کچھے دہشت گرد سافٹ ٹارگٹس کی تلاش میں ہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ وزیرستان میں ہلاک کی جانے والی چار این جی او ورکرز کے کام کے بارے میں کسی کو علم نہیں تھا اس لیے ان کی سیکیورٹی کمپرومائز ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں بچے کچھے عسکرتی پسند یا جرائم پیشہ افراد ایسے واقعات میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ہم نے دہشگردوں کا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا ہے۔ان کے بڑے حملے کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچایا۔ جس کے بعد وہ سافٹ ٹارگٹس پر حملے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں پتہ کہ احسان اللہ احسان کہاں ہے تام ان کی تلاش کے لیے کارروائی جاری ہے اور اس سلسلے میں جلد ہی اہم خبر سننے کو ملے گی۔ں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق جس اکاؤنٹ سے ملالہ یوسفزئی کو تازہ دھمکیاں دی گئیں، وہ احسان اللہ احسان کا نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ احسان اللہ احسان کی دوبارہ گرفتاری کی کوششیں جاری ہیں ،میجر بابر افتخار کا کہنا ہے کہ احسان اللہ احسان کے فرار میں ایک سے زائد افراد ملوث ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے بدھ کو صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان فوجی تحویل سے فرار ہوئے تھے جنہیں چارج کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ احسان اللہ احسان کے فرار میں چند افراد ملوث تھے جن کے خلاف کارروائی کی گئی۔ اس واقعے میں ملوث افراد کی تعداد نہیں بتا سکتے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں

close