اسلام آباد(پی این آئی) سینیٹ انتخابات میں 170 امیدوار سامنے ہیں لیکن بعض جماعتوں کی طرف سے ایک سے زائد امیدواروں کے کاغذات جمع کرائے گئے ہیں اور 21 فروری تک متبادل امیدواروں کے کاغذات واپس لے لیے جائیں گے ایک طرف الیکشن کمیشن کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کررہا ہے تو دوسری جانب
سیاسی جماعتوں کے درمیان جوڑتوڑ کا سلسلہ جاری ہے.انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کے جو امیدوار سامنے آئے ہیں ان میں سے بعض پر اعتراضات ہو رہے ہیں جس کے بعد ان کے نام واپس لیے جا رہے ہیں بعض ایسے نام بھی سامنے آئے ہیں جن کے بارے میں کوئی توقع نہیں کر رہا تھا کہ وہ بھی سینیٹ انتخابات میں امیدوار ہوں گے.سینیٹ انتخابات میں اب تک سب سے زیادہ پریشان جماعت حکومتی پارٹی ہی نظر آرہی ہے جہاں پارٹی ٹکٹ پر سب سے زیادہ اختلاف کی خبریں سامنے آ رہی ہیں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سینیٹ کی دو نشستوں پر انتخاب ہونے جا رہا ہے جہاں اب تک 10 امیدوار سامنے آئے ہیں اسلام آباد سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے لیے 6 اور خواتین کی ایک مخصوص سیٹ کے لیے4 امیدوار سامنے آئے ہیں اس الیکشن میں دلچسپ صورتِ حال یہ ہے کہ دارالحکومت سے امیدوار اور موجودہ مشیرِ خزانہ عبد الحفیظ شیخ پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف انتخاب لڑ رہے ہیں حفیظ شیخ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ کا بھی حصہ رہے ہیں.اس نشست پر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اسلام آباد کے سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو امیدوار نامزد کیا ہے لیکن امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کا نام استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کا نام واپس لے لیا جائے گا اور اصل مقابلہ حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان ہوگا ان تین ناموں کے علاوہ باقی تین متبادل امیدوار ہیں جن میں مسلم لیگ (ن) کے محمد یوسف اور تحریک انصاف کے سید محمد علی بخاری اور فرید رحمان شامل ہیں اسلام آباد میں خواتین کی ایک مخصوص نشست کے لیے چار امیدواروں میں تحریک انصاف کی فوزیہ ارشد، منیزہ جاوید مرزا، مسلم لیگ (ن) کی فرزانہ اور فرح ناز اکبر شامل ہیں.دو کورنگ امیدواروں کی موجودگی میں اصل مقابلہ فوزیہ ارشد اور فرزانہ کے درمیان ہی ہونے کا امکان ہے
کیوں کہ اسلام آباد سے جنرل نشست پر اگر یوسف رضا گیلانی کے لیے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو دستبردار کرایا گیا تو پیپلز پارٹی بھی خواتین کی نشست کے لیے مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کی حمایت کرے گی اسلام آباد کی ان دو نشستوں کے لیے قومی اسمبلی کے 342 ارکان ووٹ دیں گے اس وقت حکمران جماعت کے اتحادیوں کے ساتھ 180 ووٹ ہیں جب کہ اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے پاس 158 ووٹ ہیں.اس صورتحال میں جماعت اسلامی کے 4 ووٹ انتہائی اہمیت رکھتے ہیں خفیہ رائے شماری کی صورت میں 15 ووٹ کا فرق آنا مشکل امر نہیں ہے اور اس نشست پر حکومت کے لیے اپ سیٹ ہونے کا بھی امکان ہے کیوں کہ یوسف رضا گیلانی کا حکمران جماعت اور اتحادیوں میں کئی ایم این ایز سے ذاتی روابط ہیں.
ادھر حفیظ شیخ کے نام پر تحریک انصاف کے بھی بعض لوگوں کو بھی اعتراض ہے اور خفیہ رائے شماری کی صورت میں پیپلز پارٹی فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کرے گی اسی طرح پنجاب میں سینیٹ کی 11 نشستوں میں سے 7 جنرل جبکہ مخصوص نشستوں پردو خواتین اور دو ٹیکنوکریٹس کی سیٹوں پر مقابلہ ہونے جا رہا ہے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے جنرل نشستوں پر جن امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے ان میں مشاہد اللہ خان، پرویز رشید، زاہد حامد، سیف الملوک کھوکھر،افنان اللہ خان، سعود مجید، ساجد میر، بلیغ الرحمان اور کالم نگار عرفان صدیقی شامل ہیں.تحریک انصاف کی جانب سے سیف اللہ نیازی، جمشید اقبال چیمہ، محمد خان مدنی، روبینہ اختر، ظہیر عباس کھوکھر، عون عباس بپی، عمر سرفراز چیمہ،چوہدری اعجاز احمد چوہدری، اعجاز حسین منہاس اور نیلم ارشاد شیخ شامل ہیں حکمران جماعت کی اتحادی مسلم لیگ (ق) نے کامل علی آغا
کو ایک بار پھر ٹکٹ جاری کیا ہے خواتین کی دو نشستوں کے لیے تحریک انصاف کی زرقا سہروردی، فرحت شہزادی اور نیلم ارشاد شیخ، جب کہ مسلم لیگ (ن) کی بیرسٹر سعدیہ عباسی اور سائرہ افضل تارڑ امیدوار ہیں ٹیکنو کریٹس کی نشست پر مسلم لیگ (ن) کے اعظم نذیر تارڑ اور تحریک انصاف کے بیرسٹر علی ظفر اور عطا اللہ خان کے نام شامل ہیں.انتخابات کے حوالے سے پنجاب اسمبلی میں اس وقت 371 کے ایوان میں سینیٹر منتخب ہونے کے لیے 41.2 ووٹوں کی ضرورت ہے تحریک انصاف 181 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے جب کہ اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی 10 نشستیں ہیں راہِ حق پارٹی کا ایک رکن اور چار آزاد ارکان بھی حکومت کے ساتھ ہیں مسلم لیگ (ن) کے 8باغی ارکان بھی حکومت کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اس طرح حکمران جماعت 9جنرل نشستوں میں سے 5 نشستیں آسانی کے ساتھ جیتنے کی پوزیشن میں ہے مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں 165 نشستیں ہیں اگر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کر دے تو 4
نشستیں مسلم لیگ (ن) جیت سکتی ہے.مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الہی 10 ایم پی ایز کے ساتھ حکومتی کوٹے سے سینیٹ کی ایک نشست لینا چاہتے ہیں تاہم حکومت اور مسلم لیگ (ق) اس معاملے پر فی الحال خاموش ہیں اور مسلم لیگ (ق) کے کامل علی آغا سینیٹ کی نشست کے امیدوار ہیں پنجاب میں تحریک انصاف کے بڑے ناموں میں سیف اللہ نیازی اور اعجاز چوہدری اہم ہیں جن کی جیت ممکن بھی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) پرویز رشید، مشاہد اللہ خان، ساجد میر، زاہد حامد، بلیغ الرحمان اور عرفان صدیقی کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے سیف الملوک کھوکھر حالیہ دنوں میں اپنی زمین کے تنازع کے بعد سینیٹ کی نشست کے لیے امیدوار ہیں اور یہ الیکشن جیتنے کے لیے اپنا پورا زور لگانا چاہتے ہیں یہاں بھی سیکرٹ بیلٹ یا اوپن بیلٹ والا سوال موجود ہے اور انتخابات سیکرٹ بیلٹ سے ہونے کی صورت میں ایک سے دو سیٹوں کا فرق ہو سکتا
ہے.ٹیکنوکریٹس کی دو نشستوں پر نواز شریف کے بیشتر کیسز میں وکیل اعظم نذیر تارڑ اور تحریک انصاف کے بیرسٹر علی ظفر کی جیت ممکن ہے مبصرین کے مطابق پنجاب میں حکومت کے لیے ایک بڑی مشکل بزدار حکومت ہی ہے کیوں کہ پارٹی کے کئی ارکان ناراض ہیں اور وہ کھل کر مخالفت نہیں کر رہے لیکن انتخابات کے دوران سیکرٹ بیلٹ میں اپنے غصے کا اظہار کر سکتے ہیں اس وجہ سے حکومت اوپن بیلٹ کی پالیسی پر زیادہ زور دے رہی ہے.مسلم لیگ (ن) کے بعض ارکان پارٹی پالیسی پر سرِ عام اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور ایسے میں ان کی طرف سے سیکرٹ بیلٹ پر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینا آسان ہو گا جب کہ اوپن بیلٹ کے ذریعے ووٹ دینے پر پارٹی قیادت کی طرف سے ہمیشہ کے لیے مصالحت کا راستہ بند ہونے کا امکان ہے سینیٹ انتخابات میں سندھ واحد صوبہ ہے جہاں اب تک پیپلز پارٹی مکمل طور پر منظم نظر آرہی ہے اور اپنے امیدواروں کے ناموں کے اعلان کے بعد پر سکون انداز میں الیکشن کی تیاری کر رہی ہے.تحریک انصاف نے جن افراد کو ٹکٹ دیے ان کے ناموں پر اعتراض روز بڑھتے جا رہے ہیں اور پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی خود اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کراچی پہنچے سندھ کی 11
نشستوں کے لیے 39 امیدوار سامنے آئے ہیں جن میں سے کئی کورنگ امیدوار بھی شامل ہیں اور آخری لمحات پر ان کے نام واپس لے لیے جائیں گے7 جنرل نشستوں کے لیے حکومتی جماعت پیپلز پارٹی اور حزبِ اختلاف کی پی ٹی آئی نے اپنی اتحادی جماعت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے ساتھ ساتھ سات امیدوار میدان میں اتارے ہیں جب کہ متحدہ قومی موومنٹ کے پانچ امیدوار سامنے آئے ہیں پیپلز پارٹی نے سلیم مانڈوی والا، شیری رحمان، تاج حیدر، شہادت اعوان، صادق علی میمن، دوست علی جسر اور جام مہتاب حسین ڈیہر کو ٹکٹ جاری کیے ہیںان ناموں پر اب تک کسی کی جانب سے اعتراض نہیں کیا گیا.پی ٹی آئی نے سندھ سے فیصل واوڈا، محمد باقی مولوی، عمید علی جونیجو، محمد اشرف جبار اور زنیرہ ملک جب کہ جی ڈی اے نے پیر صدر الدین شاہ اور عبد الرحیم کو ٹکٹ جاری کیے ہیں ایم کیو ایم پاکستان کے محمد عامر خان، فیصل سبزواری، سہیل منصور خواجہ، عبدالقادر خانزادہ اور ظفراحمد خان کمالی امیدوار ہیں. ٹیکنو کریٹس کی نشستوں پر پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک، شہادت اعوان اور کریم احمد خواجہ ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے
سیف اللہ ابڑو، حنید حسین لاکھانی، محمد حسن بخشی، ثمر علی خان اور ٹی ایل پی کے یشا اللہ خان افغانی ہیں ایم کیو ایم نے رؤف صدیقی، سید قیصر عسکر زیدی اور ڈاکٹر شہاب امام کو ٹکٹ دیے ہیں خواتین کی مخصوص نشستوں پر پیپلز پارٹی نے پلوشہ خان، رخسانہ پروین اور خیر النسا جب کہ تحریک انصاف نے سرینا عدنان، فضہ ذیشان، ارم وہاب بٹ اور فرزانہ حنیف کو ٹکٹ دیے ‘ ایم کیو ایم نے خالدہ عطیب اور سبین غوری کو ٹکٹ جاری کیے ہیں.سندھ میں جنرل نشست پر انتخاب جیتنے کے لیے امیدوار کو 23 ووٹوں کی ضرورت ہو گی 165 کے ایوان میں پیپلز پارٹی 96 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی ہے جب کہ تحریک انصاف 30 اور ایم کیو ایم 21 ایم پی ایز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے جی ڈی اے کے 14، تحریک لبیک کے پاس 3 اور ایم ایم اے کی ایک نشست ہے سندھ میں مرکزی حکمران جماعت تحریک انصاف کو جیتنے کے
لیے اتحادی جماعت ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے ساتھ مل کر چلنا ہو گا.موجودہ صورتِ حال میں صوبائی حکمران جماعت پیپلز پارٹی چار جنرل نشستیں با آسانی جیت سکتی ہے جب کہ پی ٹی آئی‘ ایم کیو ایم اور ایک جی ڈی اے کے ساتھ مل کر ایک سیٹ جیت سکتی ہے لیکن اتحاد نہ ہونے کی صورت میں پیپلز پارٹی ایک نشست مزید جیت سکتی ہے سندھ سے خواتین کی دو اور ٹیکنوکریٹس کی سیٹس پر بھی سخت مقابلہ متوقع ہے اور جیتنے والے امیدوار کو 82 ایم پی ایز کا ساتھ درکار ہو گا.پیپلز پارٹی کو خواتین کی ایک اور ٹیکنوکریٹ کی ایک نشست ملنے کا امکان ہے جب کہ اپوزیشن اتحاد کی صورت میں ایک ایک نشست جیت سکتی ہے مبصرین کے مطابق سندھ میں پی ٹی آئی کو سخت مشکلات کا سامنا ہے جہاں ایم این اے فیصل واوڈا کو سینیٹ کا انتخاب لڑانے پر مقامی قیادت اعتراض کر رہی ہے. فیصل واوڈا کا بطور ایم این اے کیس آخری مرحلے میں
ہے اور امکان ہے کہ اس کیس کا فیصلہ ان کے خلاف آئے گا جس کے پیش نظر فیصل واوڈا کو سینیٹ کا الیکشن لڑایا جا رہا ہے اس پر پارٹی قائدین کو شدید تحفظات ہیں دوسرا نام سیف اللہ ابڑو کا ہے جو ٹیکنوکریٹ کے سیٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں اور پارٹی کے سندھ کے قائدین کے اس نام پر زیادہ اعتراض سامنے آنے کے بعد شاہ محمود قریشی کراچی آئے ہیں جب کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اجلاس بلایا ہے جس میں ٹکٹ ہولڈرز پر اعتراضات کے بعد مزید غور کیا جا رہا ہے.خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت تحریک انصاف کی اکثریت ہے اور حالیہ دنوں میں ویڈیو اسکینڈل کی وجہ سے یہاں کے ارکان اسمبلی بہت محتاط ہیں اور ابھی سے اپنے دیے گئے ٹکٹس پر اپنے اعتراضات بتا رہے ہیں خیبر پختونخوا میں 12 نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور یہاں اب تک 51 امیدوار سامنے ہیں سات جنرل نشستوں پر امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے امیدوار ہی کامیاب ہوں گے مسلم لیگ (ن) نے جنرل نشست کے لیے صرف ایک ٹکٹ
عباس آفریدی کو جاری کیا ہے جب کہ پیپلز پارٹی نے فرحت اللہ بابر کو ٹکٹ دیا ہے جماعت اسلامی نے عطا الرحمان، جے یو آئی نے طارق خٹک اور اے این پی نے ہدایت اللہ خان کو ٹکٹ جاری کیا پانچ آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں جن میں ملک نجیب گل خلیل، نصر اللہ خان وزیر، تاج محمد آفریدی، شکیل آفریدی اور سجاد حسین شامل ہیں.تحریک انصاف نے شبلی فراز، فیصل سلیم رحمان، محسن عزیز، اورنگزیب خان، ذیشان خانزادہ، دوست محمد خان، ناجی اللہ خٹک، حامد الحق، مینہ خان اور لیاقت خان ترکئی شامل ہیں ٹیکنوکریٹس کی سیٹ پر پی ٹی آئی نے حامد الحق، دوست محمد خان، ہمایوں مہمند اور دلروز خان کو ٹکٹ جاری کیے ہیں پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر، مسلم لیگ (ن) کے ریحان عالم خان، جے یو آئی (ف)کے زبیر علی اور اقبال خلیل جب کہ تین آزاد نصر اللہ خان وزیر، شوکت جمال امیر زادہ اور محمد علی خان سیف شامل ہیں خواتین کی
دو نشستوں پر جے یو آئی کی نعیمہ کشور اور عنایت بیگم، مسلم لیگ (ن) کی فرح خان، پیپلز پارٹی کی شازیہ طہماس خان اور مسرت جبیں آزاد امیدوار ہیں تحریک انصاف کی اہم امیدواروں میں ثانیہ نشتر، فلک ناز، زرین ریاض، صائمہ خالد، حمیدہ شاہد اور امت آرا کاکاخیل شامل ہیں.اقلیتی نشست پر تحریک انصاف کے گردیپ سنگھ اور آریش کمار جب کہ جے یو آئی(ف) کے رنجیت سنگھ اور جاوید گل اور اے این پی کے آصف بھٹی امیدوار ہیں خیبر پختونخوا میں 144 اراکین کے ایوان میں تحریک انصاف 94 سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے جنرل نشست پر انتخاب جیتنے کے لیے 21 ایم پی ایز کی ضرورت ہے اور موجودہ صورتِ حال میں اپوزیشن کی کوئی جماعت اکیلے انتخاب جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور انہیں ا?پس میں اتحاد کی
ضرورت ہو گی اب تک کی پوزیشن کے مطابق تحریک انصاف جنرل نشستوں میں سات میں سے پانچ نشستیں با آسانی حاصل کر سکتی ہے جب کہ اپوزیشن کے 46 ارکان دو نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہیں لیکن ایسا صرف اتحاد کی صورت میں ممکن ہے.فرحت اللہ بابر کو پی ڈی ایم کے نام پر الیکشن جتوانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اب تک تمام جماعتوں کی طرف سے حتمی طور پر اس بارے میں اعلان نہیں کیا گیا خواتین کی دو نشستوں کے لیے 49 ووٹ فی سیٹ درکار ہیں اور آزاد ارکان کی موجودگی میں تحریک انصاف دونوں نشستیں اپنے نام کر سکتی ہے جب کہ اقلیتی اور ٹیکنوکریٹ سیٹ پر بھی پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل ہے ایسے میں کل 12 نشستوں میں سے 8 سے 10 نشستیں جیتنا پی ٹی آئی کے لیے ممکن ہے اپوزیشن کے اتحاد کی صورت میں پی ٹی آئی کو زیادہ سے زیادہ 8 سیٹیں مل سکتی ہیں اور باقی دو جے یو آئی (ف)، ایک پیپلز
پارٹی اور ایک اے این پی کو مل سکتی ہے.مبصرین کے مطابق خیبر پختونخوا میں بھی سیکرٹ یا اوپن بیلٹ الیکشن پر اثر انداز ہو سکتا ہے کیوں کہ یہاں موجود بعض امیدواروں پر صوبائی قیادت کو اعتراضات ہیں ان میں سے ایک نام ڈاکٹر ہمایوں مہمند کا ہے جن کا پارٹی کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں ہے لیکن وزیر اعظم سے قریبی تعلق پر انہیں ٹکٹ جاری کیا گیا صوبائی وزیر شہرام ترکئی کے والد لیاقت ترکئی پر بھی پیسے کے ذریعے اثر انداز ہونے کا الزام ہے جب کہ محسن عزیز بھی بڑے صنعت کار ہیں خیبر پختونخوا میں9 آزاد امیدوار بھی موجود ہیں اور سیکرٹ بیلٹ ہونے کی صورت میں کوئی اپ سیٹ ہونے کا بھی اندیشہ ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف اپنے ارکان پر بہت زیادہ نظر رکھ رہی ہے ایک نام حامد الحق کا ہے جو کہ مدرسہ حقانیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور تحریک انصاف ان کے ذریعے صوبے میں مذہبی ووٹ کو برقرار رکھنا چاہتی ہے تحریک انصاف کے افتخار مہمند بھی ایک مہم چلا رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ویڈیو پر عمران خان
نے سینیٹ کا ٹکٹ دینے کی یقین دہانی کی اس کے باوجود انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا ایسے میں ارکان کی طرف سے تحفظات سامنے آرہے ہیں اور تحریک انصاف کی قیادت ایسی تمام اختلافی آوازوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے.بلوچستان اسمبلی کا ہمیشہ سے سینیٹ انتخابات میں پیسوں کے لین دین کے حوالے سے نام آتا رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ متناسب نمائندگی کی شرط کی وجہ سے صرف 9 سے 10 ایم پی ایز کی مدد سے سینیٹر منتخب ہونا ہے اور ماضی میں کئی ارکان بھاری رقوم خرچ کر کے با آسانی سینیٹر منتخب ہوتے رہے ہیں حالیہ انتخابات میں 65 اراکین 12 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے ایوان میں بلوچستان عوامی پارٹی 24 نشستوں کے ساتھ بڑی جماعت ہے جب کہ ایم ایم اے 11، بلوچستان نیشنل پارٹی 10، تحریک انصاف سات، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی دو اور بی این پی عوامی تین نشستوں کے ساتھ موجود ہے یہاں جنرل نشست پر نو ایم پی ایز ایک سینیٹر منتخب کریں گے اور موجودہ صورتِ حال میں 12 میں سے نو سینیٹرز بلوچستان عوامی
پارٹی یا حکومتی اتحاد کے منتخب ہو سکتے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کو ایک سیٹ مل سکتی ہے اپوزیشن میں ایم ایم اے کو ایک اور بی این پی مینگل بھی ایک سیٹ جیت سکتی ہے لیکن یہاں پر بھی اپوزیشن کا اتحاد ضروری ہے بلوچستان وہ صوبہ ہے جہاں تحریک انصاف کو سخت مشکلات کا سامنا رہا اور یہاں سے پی ٹی آئی کے جاری کردہ ٹکٹ جو عبدالقادر کو دیا گیا وہ سخت دباؤ کے باعث پی ٹی آئی کو واپس لینا پڑا اب یہاں سے سید ظہور احمد کو ٹکٹ تو جاری کر دیا گیا ہے لیکن عبدالقادر آزاد حیثیت میں بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا کر میدان میں ہیں سید ظہور آغا کو بھی سال 2017 میں پارٹی چیئرمین کے خلاف مظاہرہ کرنے پر پارٹی رکنیت کی معطلی کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اب انہیں ٹکٹ بھی جاری کیا گیا ہے جس پر پارٹی کے بعض قائدین کی طرف سے ان پر تنقید ہو رہی ہے صوبے میں سابق وفاقی وزیر یار محمد رند کے صاحب زادے میر
سردار خان رند آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے جا رہے ہیں بلوچستان عوامی پارٹی نے سرفراز احمد بگٹی، ستارہ ایاز، عبدالخالق خان، منظور احمد، اورنگزیب، پرنس احمد عمر زئی کو ٹکٹ جاری کیے ہیں بی این پی عوامی کے میر اسرار اللہ خان زہری اور سجاد ترین جب کہ جے یو آئی (ف) کے عبد الغفور حیدری، خلیل احمد بلیدی بھی مقابلے میں ہیں.ٹیکنوکریٹس کی نشست پر جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ جب کہ بی اے پی کے نوید جان بلوچ، سعید احمد ہاشمی، محمد نواز نصر اور منظور احمد سامنے آئے ہیں خواتین کی نشستوں پر 9 امیدوار ہیں اور یہاں بھی بلوچستان عوامی پارٹی دونوں نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے ایک اقلیتی نشست پر پانچ امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو گا.
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں