2018ء کے سینیٹ الیکشن میں نوٹوں سے بھرے بریف کیس مل رہے تھے، پیپلزپارٹی پربھی ووٹ خریدنے کا الزام لگ گیا

کراچی (پی این آئی) متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رکن سندھ اسمبلی نے محفوظ یار خان نے انکشاف کیا ہے کہ 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں نوٹوں سے بھرے بریف کیس مل رہے تھے ، ایم کیو ایم کی ایک رکن نے گاڑی لے کر اپنا ووٹ بیچا جب کہ دوسرے نے پیسے لئے۔ تفصیلات کے مطابق انہوں نے کہا کہ کلفٹن کے

ایک ہسپتال سے بریف کیس مل رہے تھے ، لوگ سمجھ رہے تھے کہ دوائی لینے آئے لیکن بریف کیس لے کر ہسپتال سے چلے گئے ، فروغ نسیم کی نشست تو بڑی مشکل سے نکلی کیوں کہ متحدہ کے بعض ارکان پیپلز پارٹی وزرا کی گاڑیوں میں ووٹ ڈالنے آئے۔سابق رکن سندھ اسمبلی نے بتایا کہ اس وقت کے سینئر وزیر سندھ نثار کھوڑو سینیٹ ووٹ کیلئے رابطے کر رہے تھے ، میں نے نثار کھوڑو سے ایڈوانس مانگا لیکن معاملات طے نہیں ہوئے ، جب کہ ڈاکٹر عاصم حسین کا بھی اپنا ایک سیاسی کردار ہے تاہم شہلا رضا نے اردو بولنے والے ارکان سندھ اسمبلی سے ووٹ کے لیے رابطے کیے اور وہ سب سے زیادہ رابطے کر رہی تھیں ، اس دوران شہلا رضا نے کہا تھا کہ ہم فنانس بھی کریں گے اور جنرل الیکشن کا ٹکٹ بھی دیں گے۔واضح رہے کہ سینیٹ انتخابات سے قبل 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کی بھی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس پر ایکشن لیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے خیبرپختونخواہ کے وزیر قانون سلطان خان سے ویڈیو اسکینڈل میں مبینہ ملوث ہونے پر مستعفی ہونے کی ہدایت کی تھی ، سینیٹ انتخابات سے قبل گذشتہ سینیٹ انتخابات میں اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کی اس ویڈیو کے لیک ہونے کی ٹائمنگ کو خاصی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ویڈیو میں دیکھا گیا کہ سال 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آئی ارکان کو بلا کر نوٹوں کے انبار لگا کر خریدا گیا ، تفصیلات کے مطابق حکومت نے سینیٹ انتخابات 2021اوپن بیلٹ سے کرانے کی تجویز دی جس کی اپوزیشن نے مخالفت کی تاہم سینیٹ انتخابات میں منڈی کیسے لگتی ہے اس حوالے سے 2018 کی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے۔سال 2018ء میں پی ٹی آئی کے 10 ارکان اسمبلی کو خریدنے سے متعلق بھی ویڈیو سامنے آئی ، ویڈیو میں اراکین اسمبلی کو نوٹ گنتے اور بیگ میں ڈالتے دیکھا جا سکتا ہے یہ خرید و فروخت 20 فروری 2018ء سے دو مارچ کے دوران کی گئی تاہم بعد ازاں پی ٹی آئی نے تحقیقات کے بعد ووٹ بیچنے والے 20 ارکان کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں