اسلا م آباد (آئی این پی )وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ فوج اور حکومت میں فاصلے نہیں بڑھ رہے اگر اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کو لگتا ہے کہ فاصلے بڑھ رہے ہیں تو انکی غلط فہمی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ فوج سے رابطے جرم ہیں یا اس میں کوئی برائی ہے اور میں یہ بھی ماننے کو تیار نہیں کہ کوئی
رابطے میں نہیں ہیں ، رابطے کوئی تشویش کی بات نہیں ہے کیونکہ اداروں کے کام کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے ، مولانا فضل الرحمن کا رویہ نرم ہونے کا مطلب ہے کہ ان کا سافٹ وئیر بدلا ہے،پی ڈی ایم والے احتجاج کے لئے اسلام آباد میں آ جائیں اگر انہوں نے قانون ہاتھ میں نہ لیا تو ہم راستہ نہیں روکیں گے بلکہ کوئی سہولت ہی دیں گے، سینیٹ الیکشن میں کوئی قیامت نہیں آئے گی، اگر اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لے کر آئی تو ناکام ہو جائے گی،حکومت کی بڑی غلطی بس مہنگائی کو کنٹرول نہ کرنا ہے، بلاول بھٹو اور مریم نواز ابھی ریاضت میں ہیں ،ایک بڑے باپ کی بیٹی ہے ایک بڑے باپ کا بیٹا ہے دونوں امتحان سے نہیں گزرے تاہم نواز شریف کو اقتدار سے نکالنے میں مریم کا ہاتھ ہے۔بدھ کو عرب ویب سائیٹ کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ فوج اور حکومت اس وقت ایک ہیں۔تاہم اس سوال پر کہ کیا پی ڈی ایم کے ساتھ فوج کے رابطے ہیں انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ دنیا کی کوئی ایجنسی چاہے ایم آئی سکس ہو، سی آئی اے ہو موساد ہو یا کے جی بی ہو، یہ نہیں ہو سکتا کہ لوگوں سے ان کے رابطے نہ ہوں۔ ان کا کام ہی رابطہ ہے۔اس حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ میں یہ کہتا رہوں مجھ سے رابطے نہیں ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھ سے رابطے نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ ان کا کام ہے۔ وہ اس ملک کے ادارے ہیں۔
شیخ رشید نے فوج کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ رابطے جرم ہیں یا اس میں کوئی برائی ہے۔ اور میں یہ بھی ماننے کو تیار نہیں کہ کوئی رابطے میں نہیں ہیں۔ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ رابطے حکومت کے لیے باعث تشویش ہیں تو وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کوئی تشویش کی بات نہیں ہے کیونکہ اداروں کے کام کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کا رویہ نرم ہونے کا مطلب ہے کہ ان کا سافٹ وئیر بدلا ہے۔ ایک سوال پر کہ ان کی یہ وزارت انکے کیریئر کی دوسری وزارتوں سے کیسے مختلف ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ انکی پندرھویں وزارت ہے مگر یہ بڑی ٹینشن والی وزارت ہے۔اس میں کچھ بھی نہ ہو تو کام ہوتا ہے کبھی ملک کے ایک حصے میں کچھ ہو جاتا ہے تو کبھی دوسری جگہ سے خبر آ جاتی ہے۔ ہر روز کوئی نئی چیز ہوتی ہے۔اس کے نیچے کافی سارے محکمے ہیں۔ فورسز کی بڑی تعداد ہے، رینجرز ہے، ایف سی ہے، کوسٹل گارڈز ہیں، سکاوٹس ہیں، آدھی فوج ہے ہی میری وزارت کے نیچے ۔ان سے پوچھا گیا کہ اتنے سارے فوجی محکموں کی سربراہی کرکے کیسا محسوس کر رہے ہیں تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں تو کوئی اتنی مداخلت ہی نہیں کرتا (ان محکموں میں) تو محسوس کیا ہونا ہے۔ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کے بعد اب ان کا ہدف اور کچھ نہیں ہے
اور وہ ریٹائرمنٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ شیخ رشید سے پوچھا گیا کہ بطور وزیر داخلہ اپوزیشن کے اس ماہ کے آخر میں اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کے حوالے سے انکی کیا حکمت عملی ہو گی تو ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم والے آ جائیں اگر انہوں نے قانون ہاتھ میں نہ لیا تو ہم راستہ نہیں روکیں گے بلکہ کوئی سہولت ہی دیں گے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے گذشتہ سال ملتان میں پی ڈی ایم کو جلسہ کرنے سے روکے جانے کے حوالے سے کہا کہ ہم نے ملتان میں غلط کیا ان کو قاسم پارک نہیں جانے دیا، ان کو وہاں نہ جانے دینا ہمارا بلنڈر تھا۔شیخ رشید نے کہا لیکن پھر اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کے وقت ہم نے انہیں آنے دیا۔ یہاں تین ہزار سے زیادہ بندے نہیں تھے۔تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ اپوزیشن کی ہر سیاسی جماعت کے پاس لوگ ضرور ہیں۔ لوگوں کو ہم سے اختلاف اور اعتراض ہے تاہم ہم ابھی قابل نفرت نہیں ہوئے کہ لوگ سڑکوں پر آ جائیں۔ عمران خان میں ابھی وہ کشش ہے کہ لوگ اس کی بات پر دھیان دیتے ہیں۔ سو باتیں ہیں (جن پر اختلاف ہو سکتا ہے جیسے کہ) مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ مگر ابھی بھی ہم قابل نفرت نہیں۔اس سوال پر کہ عمران خان حکومت سے اب تک کیا غلطیاں ہوئی ہیں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کوئی بڑی غلطی نہیں ہوئی بس مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے۔ 2018 کے سینٹ انتخابات سے قبل خیبر پختونخواہ کے ارکان اسمبلی کی
جانب سے رشوت لینے کی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ قوم میں بڑی گراوٹ ہے ستر کی دھائی میں بھی کونسلر بکتے تھے۔ ہم کونسلروں کو عمرے پر لے کر جاتے تھے۔وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم بِکنا اور بکنا کے کلچر سے نہیں نکل سکتے۔عمران خان کا بڑا کام ہے وہ کہتا ہے کہ سینیٹ الیکشن کو اوپن کر دیں۔ کم از کم سینیٹ کے لیول پر تو اچھے لوگ منتخب ہو جائیں۔انہوں نے چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہاں 64 لوگ کھڑے ہوتے ہیں ووٹنگ کے وقت 44 رہ جاتے ہیں اور یہ کوئی بچے نہیں سینیٹ کے ممبران ہیں۔80 کی دہائی کا ذکر کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ سستے زمانوں میں جب اسمبلی کے تقریبا اڑھائی سو ممبران ہوتے تھے تو ایک دن ولی خان نے انہیں کہا کہ شیخ رشید اگر میرے پاس تین چار سو کروڑ روپیہ ہو تو مجھے کسی ووٹر کی ضرورت نہیں ہے سارے ووٹر مجھے گھر آ کر ووٹ دیں۔اس سوال پر کہ کیا بطور رکن اسمبلی انہیں بھی سینٹ انتخابات کے لیے رشوت کی آفر کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوا تاہم جب نوے کی دہائی میں نواز شریف صاحب ارکان اسمبلی کو ووٹ یقینی بنانے کے لیے انہیں چھانگا مانگا لے گئے تو میں نے انہیں کہا کہ ووٹ آپ کو ہی دوں گا مجھے گھر جانے دیں۔اس پر انہوں نے صرف مجھے اور چوہدری نثار کو گھر جانے کی اجازت دی باقی سب کو وہیں رکھا گیا۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو اور مریم نواز ابھی ریاضت میں ہیں۔ایک بڑے باپ کی بیٹی ہے ایک بڑے باپ کا بیٹا ہے دونوں امتحان سے نہیں گزرے تاہم نواز شریف کو اقتدار سے نکالنے میں مریم کا ہاتھ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی وہ جماعت ہے جو بہتر باتیں کر رہی ہے اختلاف کر رہی ہے مگر فوج کے خلاف بدزبانی نہیں کر رہی۔ وہ بے وقوف نہیں سیاست میں سب اپنا فائدہ ہی دیکھتے ہیں۔عمران خان کا بڑا کام ہے وہ کہتے ہیں سینیٹ الیکشن کو اوپن کر دیں۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت مدت پوری کرے گی بلکہ مجھے ڈر ہے کہ اپوزیشن اسی طرح کی حرکتیں کرتی رہی تو عمران خان اگلے پانچ سال تک بھی رہے گا۔ وہ لوگوں میں اپنا کیس بہتر لڑتا ہے۔یہ لوگ صرف عمران خان کے خلاف کیس لڑتے ہیں اپنا کیس نہیں لڑ سکتے یہ ہو نہیں سکتا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی الیکشن اکھٹے لڑیں۔اس سوال پر کہ کیا سینیٹ الیکشن میں حکومت کے لیے کوئی سرپرائز آ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک آدھ ووٹ کا سرپرائز آ گیا تو کونسی قیامت آ جائے گی۔ اگر کے پی کے میں پی ٹی آئی ایک ووٹ زیادہ لے گئی اور ایک آدھے صوبیمیں کم لے گئی تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے مزید کہا اگر اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لے کر آئی تو ناکام ہو جائے گی۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں