اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ نے پاکستان سٹیل کی نجکاری کے منصوبے کی تفصیلات طلب کر تے ہوئے کہاہے کہ نجی سٹیل ملز منافع میں ہیں تو پاکستان سٹیل ملز کا کیا مسئلہ ہے؟ ،وفاقی وزراء بتائیں سٹیل مل کیساتھ کیا کرنا ہے؟ اس پر روزانہ کا بلاوجہ خرچہ ہورہا ہے، سرکار کا پیسے بانٹنے کیلئے نہیں ہوتا؟، مل
بند پڑی ہے ملازمین کو پیسے کس بات کے دیں؟،حکومت کے پاس اتنا پیسہ ہی نہیں کہ مل چلا سکے۔تفصیلات کے مطابق منگل کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے پاکستان سٹیل ملز ملازمین کی پروموشن سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔دورانِ سماعت وفاقی وزیر نجکاری محمد میاں سومرو اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے سیکرٹری نجکاری اور سیکرٹری منصوبہ بندی کی سخت سر زنش کرتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری صاحب! آپ کو معلوم بھی ہے کہ روزانہ اسٹیل ملز پر کتنا خرچ ہو رہا ہے؟ آپ کو کوئی درد نہیں کہ ملک کا پیسہ کہاں جا رہا ہے؟۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ وفاقی وزراء بتائیں سٹیل مل کیساتھ کیا کرنا ہے؟ اس پر روزانہ کا خرچہ بلاوجہ ہورہا ہے، سرکار کا پیسے بانٹنے کیلئے نہیں ہوتا؟، مل بند پڑی ہے ملازمین کو پیسے کس بات کے دیں۔سٹیل مل ملازمین کے وکیل نے جواب دیا کہ اگر مل بند پڑی ہے تو اس کی ذمہ دار انتظامیہ ہے۔چیف جسٹس نے سیکرٹری نجکاری حسن ناصر جامی سے استفسار کیا کہ کیوں نہ سٹیل مل کا روز کا خرچہ آپ سے نکلوائیں، آپ کی ناکامی ہے جو یہ خرچہ ہورہا ہے، آپ کو اس پیسہ کے جانے کا کوئی درد نہیں ؟، کسی قابل آدمی کو آنے دیں آپ گھر جائیں، آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں، اتنا علم نہیں کہ سٹیل مل کا حجم کتنا ہے تو نجکاری کیا کریں گے؟، ایک سال میں یہ بھی معلوم
نہیں کہ اسٹیل مل کے کتنے پروجیکٹ چل رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام صنعتیں بیٹھ گئیں تماشا مچایا ہوا ہے، پی آئی اے، ہیوی مکینکل کمپلیکس، شپ یارڈ بند پڑے ہیں، کسی فیکٹری کا پہیہ نہیں چل رہا صرف پیسہ جا رہا ہے، پاکستان کے بحری جہاز چین میں بن رہے ہیں،آپ کے پاس اتنا بڑا شپ یارڈ ہے، یہاں جہاز کیوں نہیں بناتے؟ پوری دنیا میں سٹیل انڈسٹری کو عروج حاصل ہے، آپ سے مل نہیں چل رہی۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ لوگ سٹیل مل کا سارا سامان بیچ دیں گے اور فارغ ہو کر بیٹھ جائیں گے۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ ملک کا پیسہ ضائع ہو رہا ہے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ انہوں نے کہا کہ نجی سٹیل ملز منافع میں ہیں تو سرکاری اسٹیل مل کا کیا مسئلہ ہے۔؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ سٹیل مل میں بجلی، پانی، تنخواہیں سب کچھ مل رہا ہے بس مل بند ہے، کسی سرکاری افسر کو پرواہ نہیں سب گھروں میں سو رہے ہیں، سٹیل مل میں 450 افسران کریں گے کیا؟ ،تمام افسران کو ایک لیٹر سے گھر بھجوائیں، سٹیل مل کے چیئرمین بیرون ملک گھوم رہے ہیں۔وکیل پاکستان سٹیل مل شاہد باجوہ نے کہا کہ سٹیل مل کو صرف 40 افسران کی ضرورت ہے، چینی ماہرین کے مطابق سٹیل مل کو چلانے کیلئے 500 ملین ڈالر درکار ہوں گے، صرف 70 سے 80 فیصد ملازمین کو برقرار رکھ سکتے ہیں، قوم کے مفاد میں عدالت بقیہ
51 فیصد ملازمین نکالنے کی اجازت دے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کے پاس اتنا پیسہ ہی نہیں کہ مل چلا سکے۔جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ سٹیل مل کا 400 ارب کا قرض کون اتاریگا؟ سٹیل مل پر روزانہ 20 ملین کا خرچ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مل کی نجکاری کرنے میں 550 سال لگ جائیں تو کیا فائدہ ہے؟۔وزیر نجکاری نے جواب دیا کہ واجبات ختم ہونے کے بعد ہی نجکاری کا عمل مکمل ہوگا۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے بتایا کہ بنیادی طور پر سٹیل مل کو لیز پر دیا جائے گا اور ملکیت حکومت کے پاس ہی رہے گی۔وفاقی وزیر نجکاری محمد میاں نے عدالت میں کہا کہ سٹیل مل کے اثاثوں کی مالیت 100 ملین ڈالر ہے، ستمبر یا اکتوبر میں اس کی بولی لگنے کا امکان ہے، واجبات ادا کرکے سٹیل مل کو پرکشش بنائیں گے۔سپریم کورٹ نے سٹیل مل نجکاری کے حوالے سے منصوبے کو تحریری طور پر پیش کرنے کا حکم دیا۔عدالت نے نجکاری کمیشن اور وزارت صنعت و پیدوار سے دوہفتے میں جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ آگاہ کیا جائے سٹیل مل کے حوالے سے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں، عدالت نے حکم دیا کہ ملازمین اور سٹیل مل کے وکلاء بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالیں۔ عدالت نے سٹیل ملز انتظامیہ اور ملازمین کے درمیان ایڈووکیٹ رشید اے رضوی کو ثالث مقرر کر تے ہوئے کہا کہ ایڈووکیٹ رشید اے رضوی سٹیل مل کے ملازمین سے بات کر کے تحریری حل
پیش کریں۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں