اسلام آباد(آ ئی این پی) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پاکستان سنگل ونڈو بل 2021 کی متفقہ طور پر منظوری دے دی جبکہ کمیٹی کو نیشنل بینک کے حکام نے آ گاہ کیا ہے کہ بنگلہ دیش اور افغانستان میں نیشنل بینک کی برانچز بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، خسارہ کے باعث بنگلہ دیش میں نیشنل بینککی تین برانچز بند کی
جائیں گی، افغانستان جلال آباد میں واقع نیشنل بینک کی برانچ کو مالیاتی خسارہ کا سامنا ہے، جلال آباد میں واقع نیشنل بینککی برانچ کو بند کر دیا جائے گا، نیشنل بینک کی مختلف ممالک میں 23 برانچیں قائم کی گئی ہیںجس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر فاروق حامد نائیک نے کہا کہ بینکوں کی جانب سے دیے گئے قرض کی تفصیلات اور خسارے کی وجوہات اور زمہ دارافسران کمیٹی کو فراہم کی جائیں تاکہ معاملہ کا مزید جائزہ لیاجا سکے۔ پیر کو ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فاروق حامد نائیک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے پاکستان سنگل ونڈو بل 2021 کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی نے بل کی متفقہ طور پر منظوری دے دی۔ اجلاس میں سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے پیش کئے گئے اینٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل 2020 کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے قانون کو جلدی میں پاس کیا گیا ہے۔ جلد بازی کی وجہ سے قوانین میں سقم ہیں اس لئے ترمیم لایا ہوں اور ادارے کی طرف سے جو جواب فراہم کیا گیا ہے اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جو بات آپ کر رہے ہیں وہ آپ کے مجوزہ بل میں نہیں۔اس بل کو واپس لے کر نیا ڈارفٹ بنا کر کمیٹی اجلاس میں پیش کریں۔
قائمہ کمیٹی کے ایجنڈے سے بل کو معزز سینیٹر مشتاق احمد نے واپس لے لیا تاکہ ڈرافٹ میں ترمیم لا کر کمیٹی میں پیش کیا جاسکے۔سینیٹر طلحہ محمود کے سینیٹ اجلاس میں پوچھے گئے سوال کے حوالے سے چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ اس بل پر کافی بحث ہو چکی ہے اور معلومات فراہم کر دی گئی ہیں جن کو رپورٹ میں شامل کر کے ہاؤس میں پیش کر دیا جائے۔ کمیٹی نے معاملہ ختم کر دیا۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان کی جانب سے پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی کی طرف سے مجموعی طور پر ادا کیے گئے ٹیکس کی تفصیلات کے حوالے کے سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ کے حوالے سے سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ صرف ایک شخص کے ہی خلاف معاملہ کیوں اٹھایا گیا ہے دیگر لوگوں، کمپنیوں او ر تنظیموں کے ٹیکس کی تفصیلات کیوں طلب نہیں کی گئیں۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ ایسی معلومات کا تحفظ ہوتا ہے۔آرٹیکل 216 کے تحت پروٹیکشن حاصل ہے۔قانون کے تحت ٹیکس کے تحت جمع کرائی جانے والی تمام دستاویزات کی حفاطت ٹیکس حکام کی ذمہ داری ہے۔ جس پر قائمہ کمیٹی نے معاملہ ختم کر دیا۔ نیشنل بینک کی ساؤتھ ایشن ریجن میں 5 برانچوں کو بند کرنے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ نیشنل بینک حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ نیشنل بینک کی مختلف ممالک میں 23 برانچیں قائم کی گئی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں
6برانچیں ہیں، صرف دو برانچیں ایک افغانستان اور ایک بنگلہ دیش میں بند کر نے کی منظوری حاصل کی گئی ہے۔ منظوری وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک پاکستان اور متعلقہ ملک کے ریگولیٹر سے حاصل کی جاتی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ افغانستان کے علاقہ جلال آباد اور بنگلہ دیش کے علاقہ سلٹ میں دونوں برانچیں مسلسل خسار ے میں جا رہی تھیں جس کی وجہ سے انہیں بند کیا جارہا ہے۔ بنگلہ دیش میں مزید برانچوں چٹاگانگ اور ڈھاکہ کی برانچوں کو بھی منظوری کے بعد بند کر دیا جائے گا۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ذمہ دار افسران اور بینکوں کی جانب سے دیے گئے قرض کی تفصیلات اور خسارے کی وجوہات کمیٹی کو فراہم کی جائیں جن کو مزید جائزہ لیا جائے گا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر محسن عزیز کے معالے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ کمرشل بینکوں کی جانب سے صوبہ خیبر پختونخواہ کی عوام کو مجموعی قرض کا صرف ایک فیصد اور صوبہ بلوچستان کی عوام کو 0.4 فیصد قرض دیا گیا ہے جو سراسر زیادتی ہے اس مسئلے کا پہلے بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ اتنا فرق کیوں آیا ہے۔اسٹیٹ بنک پاکستان ان صوبوں کیلئے رعائتی سکیمیں متعارف کرائے تاکہ یہاں کی صنعتوں کو فروغ مل سکے۔سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کہ ان صوبوں میں سیاحت کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ بینکوں نے کم شرح سے قرض دینے کی
تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی حکومت سے سفارش کرتی ہے کہ ملک کے چھوٹے صوبوں میں کاروبار کیلئے قرض فراہمی میں تفریق کو ختم کیا جائے۔ سینیٹرمیاں عتیق شیخ نے کہا کہ ملک میں 28 پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنیاں لوگوں سے سرمایہ کاری حاصل کر رہی ہیں۔ اس سلسلے کو روکنے کیلئے اسٹیٹ بینک فوری اقدامات کرے۔جس پر ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ معزز سینیٹر صاحب کمپنیوں کی تفصیلات فراہم کر دیں اس پر کاروائی کریں گے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں