مولانا فضل الرحمان کے بھر پور استقبال کی تیاریاں جاری، داخلی و خارجی راستوں پر جھنڈے اور پینا فلیکس لگا دیئے گئے

سجاول (این این آئی) نوفروری کو سجاول میں پی ڈی ایم سربراہ مولانافضل الرحمان کی آمد کے سلسلے میں جے یوآئی سجاول کی جانب سے بھرپور استقبال کی تیاریاں کی جارہی ہیں شہرکے داخلی خارجی راستوں پر بینر،جھنڈے اور پینافلیکس لگائے جارہے ہیں، جبکہ استقبالی کیمپ بھی قائم کئے گئے ہیں علاقے میں عوام کو

بھرپور شرکت کیلئے اسپیکر پر ضلع بھرمیں اعلانات کئے جارہے ہیں، مولانافضل الرحمان نوفروری کو سجاول سے ایک بہت بڑے قافلے کی قیادت کرتے ہوئے میرپوربٹھور، شاہ کریم ٹنڈو محمد خان، حیدرآباد فتح چوک سے ہوتے ہوئے پی ڈی ایم کے جلسہ گاہ میں پہونچیں گے، جہاں جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔ نوفروری کو کراچی، ٹھٹھہ، بدین،تھرپارکر، ٹنڈومحمدخان سے بھی جے یوآئی کے قافلے مولانافضل الرحمان کے جلوس میں شامل ہوں گے۔ ۔۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ ایک دن فیصلہ کریں کہ حکومت کو گرانا ہے اور حکومت گر جائے گی، اپوزیشن کو بری خبر سنا دی گئی اسلام آباد (پی این آئی) نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے سینئیر صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ حکومت کو گرانا کوئی خالہ جی کا باڑا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ آپ ایک دن فیصلہ کریں کہ حکومت کو گرانا ہے اور حکومت گر جائے گی۔ حکومت اپوزیشن کے سر پر نہیں کھڑی۔حکومت اس لیے قائم نہیں ہے کہ اپوزیشن اس کی سپورٹ کر رہی ہے۔ حکومت ہمیشہ اپوزیشن کے بغیر بھی ہوتی ہے۔ جب عمران خان نے بھی دھرنوں سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا وہ تب بھی نواز شریف کو گھائل نہیں کر سکے تھے۔ ان کو اقتدار سے محروم نہیں کر سکے۔ اُس وقت پھر سپریم کورٹ میں پانامہ آیا، اقامہ آیا جس کے بعد سپریم

کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر نواز شریف گھر آئے۔اپوزیشن کا یہ کہنا کہ ہم حکومت کو گرا دیں گے یہ غلط تھا۔ اس معاملے پر ایک چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا جانا چاہئیے تھا۔ اور بتانا چاہئیے تھا کہ یہ مطالبات ہیں ہمارے ، اب پر بات کی جائے ۔ الیکشن کروانے تھے تو اپوزیشن کو اسمبلی میں بیٹھنا نہیں چاہئیے تھا۔ اپوزیشن اگر اسمبلی میں نہ بیٹھتی اور پھر کہتی کہ دھاندلی ہوئی ہے تو پھر ان کی بات میں وزن بھی ہوتا۔مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کے ساتھ ان کا مضبوط حلقہ موجود تھا، اگر اپوزیشن پہلے دن ہی استعفیٰ دے دیتی اور اسمبلی میں نہ بیٹھتی تب بھی یہ حکومت کو اس طریقے سے نہیں گرا سکتے تھے جیسے بھٹو صاحب کی مرتبہ ہوا تھا۔ عمران خان کو حکومت کرنے کا موقع دینا اپوزیشن کے اپنے مفاد میں تھا۔ گذشتہ ڈھائی سال میں عمران خان کی حکومت نے جو کیا ، اس پر اپوزیشن کرنا اب ان کا حق ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں