اسلام آباد (پی این آئی) چار فروری کو حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا اجلاس ہوا جس میں اپوزیشن کی حکومت مخالف حکمت عملی تشکیل دی گئی اور اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 26 مارچ کو حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا جائے گا جبکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں سینیٹ میں
مشترکہ اُمیدوار لائیں گی۔ اس اجلاس کے حوالے سے صحافی اعزاز سید نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اجلاس کے دوران آصف علی زرداری نے کچھ ایسی باتیں کیں جن پر نواز شریف کو چہرہ اُتر گیا جبکہ مولانا فضل الرحمان سمیت اجلاس کے اکثر شرکا کے چہروں پر بھی مایوسی کے بادل چھا گئے تھے۔اعزاز سید نے بتایا کہ اجلاس میں آصف علی زرداری نے کہا کہ میں نے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے نکالا اور اختیارات صدر سے لے کر پارلیمنٹ کو دیے۔انہوں نے کہا کہ میں نے ”ان کی” مخالفت کے باوجود اٹھارہویں ترمیم منظور کروائی، میرے خیال میں اب ہمیں مرکز میں عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا چاہئیے، اور میں اس سلسلے میں جوڑ توڑ کر سکتا ہوں۔آصف زرداری کی گفتگو پر ردعمل میں مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگر ہم لانگ مارچ کی تاریخ بھی نہ دے سکے اور ماضی کے ناکام تجربے کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد پیش کرنے جارہے ہیں تو پھر ہمیں اس حکومت کے خلاف تحریک پر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ لینا چاہئیے۔ نوازشریف نے بھی گفتگو میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے کہا کہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں بولے، تحریک عدم اعتماد میں کم اعداد ہوں یا اس تحریک کی حمایت اسٹیبلشمنٹ کرے مجھے دونوں قبول نہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے سینیٹ انتخابات، قومی و صوبائی اسمبلیوں سمیت کسی میں کوئی دلچسپی نہیں، میں تو سمجھتا ہوں ہمیں سب فورمز سے استعفیٰ دینا چاہئیے ۔ تاہم میرے کچھ لوگوں کے خیال میں ہمیں سینیٹ میں حصہ لینا چاہئیے اس لئے میں راضی ہوا ہوں۔ صحافی اعزاز سید نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اپوزیشن اجلاس میں کسی نے کچھ کہا تو نہیں مگر کم و بیش تمام
جماعتیں پیپلزپارٹی کو شک کی نظر سے دیکھتی رہیں۔اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی روشنی میں تین باتیں طے ہوگئیں۔ پہلی بات یہ کہ اپوزیشن جماعتیں ملکر سینیٹ انتخابات میں حصہ لیں گی لہٰذا سینیٹ کی حد تک کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہوگا۔ اعداد و شمار کی روشنی میں فی الحال حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو سینیٹ انتخابات میں باقی جماعتوں پر عددی اکثریت حاصل ہوجائے گی لہٰذا حکومت کو سینیٹ میں قانون سازی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہوجائیں گی۔دوسری بات یہ کہ اپوزیشن جماعتیں 26 مارچ کو اسلام آباد تک لانگ مارچ کریں گی مگر وہ اس بات پر کنفیوژ ہیں کہ انہیں دارالحکومت میں دھرنا دینا چاہئیے بھی یا نہیں۔ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کا تجربہ موجود ہے کہ اگر حکومت کے اعصاب مضبوط ہوں تو اسٹیبلشمنٹ کی دھرنے کو حمایت کے باوجود بھی دھرنا کامیاب نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اپوزیشن کا
لانگ مارچ قافلوں کے دو تین یوم میں اسلام آباد پہنچ کر ایک بڑا جلسہ کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔حکومت گھر جائے گی نہ مرکز یا صوبوں میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ اور تیسری بات یہ کہ اپوزیشن جماعتیں ابھی تک یہ بنیادی فیصلہ کرنے سے گریزاں ہیں کہ ان کا اصل ہدف کون ہے۔ غیر جمہوری اسٹیبلشمنٹ یا پاکستان تحریک انصاف کی عمران خان حکومت۔ مسلم لیگ ن کی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے تو پیپلزپارٹی کی قیادت عمران حکومت کے خلاف۔ مولانا فضل الرحمان عمران حکومت کو اسٹیبلشمنٹ سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں تو مریم نواز دونوں کو ایک دوسرے سے جڑا ہوا معاملہ قرار دیتی ہیں۔ سمت مگر کسی کو معلوم نہیں اور اگر معلوم ہے بھی تو کوئی منزل پر متحد ہوکر چلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں