اسلام آباد (پی این آئی) سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کروانے کے معالے پر جاری کیا گیا صدارتی آڑدیننس بد نیتی پر مبنی قرار دے دیا گیا ، ماہر قانون جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی کہتے ہیں کہ یہ چیز یقیناً بدنیتی پر مبنی ہے ، خاص طور پر جب کہ پہلے ہی سپریم کورٹ کے پاس پٹیشن گئی ہوئی ہے ، اس صورتحال میں اب یہ
آرڈیننس سپریم کورٹ میں چیلنج ہوجائے گا اور قومی امکان ہے کہ عدالت اسے معطل کردے گی۔تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے سوچا ہوگا کہ ایک ایسا آرڈیننس پاس کردیا جائے کہ جس میں یہ لازم ہو جائے کہ سینیٹ الیکشن کے لیے اس چیز کا پابند کردیا جائے کہ وہ بتادے کہ کس کو ووٹ ڈالا۔ماہر قانون کے مطابق حکومت کی جانب سے کوشش کی گئی اور اس سلسلے میں انہوں نے آئین میں 26 ویں ترمیم لانے کی بھی کوشش کی جس کے تحت سینیٹ الیکشن کے حوالے سے ترمیم کی جانا مقصود تھی لیکن وہ حکومت اور اپوزیشن کے لڑائی جھگڑے کی نظر ہوگیا۔جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانے نے کہا کہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ڈر پڑا ہوا ہے کہ ان کے لوگ سینیٹ الیکشن میں اپنی جماعت کے امیدواروں کو ووٹ دیں گے یا نہیں ، اس لیے ان کے لیے بہت ضروری تھا کہ کچھ نہ کچھ کیا جائے ، اسی سلسلے میں حکومت نے سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی فائل کی ہوئی ہے۔ یہاں واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن ترمیمی آرڈیننس2021 کے مسودے پر دستخط کردیے ، آرڈیننس کے ذریعے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے ہوسکیں گے،آرڈیننس کا اطلاق سپریم کورٹ کی رائے سے مشروط کیا گیا ہے، آرڈیننس فوری طور پر نافذالعمل ہوگا ، وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کا دستخط شدہ صدارتی آرڈیننس شیئر کیا
۔بتایا گیا ہے کہ الیکشن ترمیمی آرڈیننس کے لیے 2017ء کے الیکشن ایکٹ 33 کی شق81 میں ترمیم کی گئی ہے ، الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 122 اور 185میں بھی ترمیم کی گئی ، آرڈیننس کے تحت پارٹی سربراہ رکن اسمبلی کوووٹ دکھانے کی درخواست کرسکے گا، جب کہ الیکشن کمیشن بھی پارٹی سربراہ کی درخواست پر کسی بھی رکن کا ووٹ دکھانے کا پابند ہوگا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں