لاہور(پی این آئی) سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ ن لیگ، جے یوآئی ف پیپلزپارٹی کے بغیر استعفوں کااعلان کرسکتی ہیں، پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں لانگ مارچ، تحریک عدم اعتماد اور استعفوں کی بات کی جائے گی، فی الحال درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔انہوں نے نجی ٹی وی
کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کی سیاست بظاہر تو میڈیا، اخبارات کے ذریعے لگتا ہے یہ پی ڈی ایم اور عمران خان کی لڑائی ہے، حقیقت میں انٹرنیشنل پلیئرز ہیں، جو بڑے کردار ہیں، عمران خان جو بات کررہے ہیں وہ عوام کیلئے کررہے ہیں، اصل بات نہیں بتا رہے، پی ڈی ایم بھی اصل بات نہیں کررہی، میڈیا بھی سہی بات نہیں کررہا ہے۔عمران خان پر دباؤ پی ڈی ایم کا نہیں کسی اور طرف سے ہے، کیونکہ ڈلیور نہیں کررہے۔انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے جب صحافت شروع کی تو ضیاء کا دور تھا، اس وقت بھی بات کرلی جاتی تھی ،مشرف کا دور بھی تھا، لیکن موجودہ صورتحال میں کوئی ٹھیک بات نہیں کررہا، اگر میں بات کردوں تو ثبوت مانگے جائیں گے، ثبوت تو تجزیوں پر نہیں بلکہ خبر پر دیے جاتے ہیں۔صحافی کے پاس ہر چیز کا دستاویزی ثبوت نہیں ہوتا، اس لیے میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں عمران خان میڈیا پر آکر جو انٹرویو دیتے ہیں ،تقاریر کرتے ہیں، وہ ٹھیک بات نہیں بتاتے، اسی طرح پی ڈی ایم روزانہ جو کہانیاں بیان کررہی ہے، وہ بھی ٹھیک بات نہیں بتا رہے، ان کو بھی پتا ہے ان کا کام کہاں سے ہونا ہے، یہ احتیاط کا تھوڑا سا زمانہ ہے، اس تھوڑے سے زمانے کو گزار لیں پھر کھل کر بات کرسکیں گے۔انہوں نے کہا کہ جب وزیراعظم کہتے ہیں کہ مہنگائی کم ہوگئی ہے،لیکن ایسا نہیں ہے، یہاں ملازمین مہنگائی کیخلاف احتجاج کررہے تھے، متاثرین مہنگائی نے 10فروری سے دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان سے جب کچھ اہم لوگ ہفتے میں دوتین بار جاکر ملاقات کرتے ہیں توان کا ایجنڈا یہی ہوتا ہے کہ مہنگائی قابو سے باہر اوربہت زیادہ ہوگئی ہے، تنخواہ دار طبقہ کچلا جاچکا ہے، کچھ کریں، جس پر عمران خان ہر باریہی کہتے کہ کچھ کرتے ہیں، سینیٹ کا
الیکشن بھی آرہا ہے، عمران خان نے شورمچانا شروع کردیا ہے کچھ کریں، وہ خود حکومت میں ہیں پھر بھی ہارس ٹریڈنگ سے خوفزدہ ہیں، پتا نہیں ان کو کس سے خوف ہے۔کہتے ہیں پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکل چکی ، ان کو بتانا چاہیے وہ کونسی طاقت ہے کہ آپ خفیہ ووٹنگ کیخلاف سپریم کورٹ میں چلے گئے۔حقائق کو سامنے رکھیں تو تحریک عدم اعتماد کی بات مسلم لیگ ن کو کرنی چاہیے کیونکہ وہ بڑی جماعت ہے، جبکہ پیپلزپارٹی تیسری بڑی جماعت ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ بڑی جماعت کیوں بات نہیں کررہی اور چھوٹی جماعت کیوں کررہی ہے؟لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ دھرنا نہ دیں، اسلام آباد میں بھارت میں کسانوں کے نئی دہلی والے حالات پیدا نہ کریں، بلکہ آئینی طریقہ استعمال کریں۔اگر مسلم
لیگ ن مان جاتی ہے تو اخترمینگل چارووٹوں سے وزیر اعظم بنے تھے، اب وہ پی ڈی ایم میں شامل ہیں، دوچار آزاد بھی ہیں، عمران خان کی وزراء کی ٹیم نے چودھری برادران کے پاس جاکر سرنڈر کردیا ہے یہ آصف زرداری کی وجہ سے پرویزالٰہی کی بڑی کامیابی ہے، آصف زرداری اور پرویز الٰہی میں مسلسل رابطے میں ہیں، آصف زرداری چاہتے ہیں پنجاب اور بلوچستان میں تبدیلی کے بعد اسلام آباد میں تبدیلی لائی جائے۔لیکن نوازشریف کو یقین تھا کہ بڑی طاقتیں عمران خان کو ہٹا دیں گی، لیکن ایسا ہوا نہیں،تحریک انصاف کے اندر تین چار لوگ وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں، جبکہ بظاہر وہ عمران خان کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہیں، اب پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں لانگ مارچ اور دھرنوں اور استعفوں کی طرف جانے کی بات کی جائے گی ، درمیانی راستہ نکالنے کی بھی کوشش کی جائے گی اگر درمیانی راستہ نہ نکلا توہوسکتا
ہے کہ مسلم لیگ ن اور جے یوآئی ف، قوم پرست جماعتیں، پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر خود استعفوں کا اعلان کردیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں