اسلام آباد (این این آئی)وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان کے سفارتی طور پر تنہا ہونے کا تاثر درست نہیں، ہمیں حکومت ملی تو پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، اس وقت دوست ممالک اگر ہماری معاونت نہ کرتے تو صورتحال مختلف ہوتی، خارجہ پالیسی کو سیاسی اور معاشی صورتحال سے الگ
کر کے نہیں دیکھا جا سکتا، ملک میں سیاسی عدم استحکام کی فضا پیدا کرنے والی قوتیں سفارتی محاذ پر پاکستان کو مشکلات سے دوچار کر رہی ہیں، معاشی سفارتکاری سے براعظم افریقہ کے لئے برآمدات میں سات فیصد کا اضافہ ہوا ہے، افغانستان کی حکومت خود اعتراف کر رہی ہے کہ پاکستان امن کوششوں میں ان کی معاونت کر رہا ہے، بائیڈن انتظامیہ اور پاکستان کے نقطہ نظر میں افغانستان کے حوالے سے یکسانیت پائی جاتی ہے، ایران کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں بہتری آئی ہے، چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کو مزید وسعت حاصل ہو رہی ہے، سعودی عرب کے ساتھ ہمارے برادرانہ تعلقات ہیں اور رہیں گے، ہمارا معاہدہ مخصوص مدت کے لئے تھا، زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوئے تو اسے رقم واپس کر دی، متحدہ عرب امارات نے واضح کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ ان کے تعلقات پاکستان کی قیمت پر نہیں ہوں گے، بھارتی حکومت کی ہندوتوا سوچ نے خطے کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے، ہندوستان بلوچستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے، ہندوستان کی طرف سے پاکستان کی سرحدی حدود کی مسلسل خلاف ورزیوں کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا ہے، سرحدی علاقہ میں مقیم شہریوں کے لئے بنکرز بنائے جائیں گے، مسلسل بارہ بارہ سال کشمیر کمیٹی کی سربراہی کرنے والوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے چپ سادھے رکھی، گزشتہ حکومت کے حلق میں
کشمیر کا لفظ اٹک جاتا تھا، ہم نے مسئلہ کشمیر کو دنیا بھرپور طریقے سے اجاگر کیا، کوئی مائی کا لعل کشمیر کا سودا نہیں کر سکتا۔ اپنے ایک بیان میں وزیر خارجہ نے کہا کہ خارجہ پالیسی کے اثرات دوررس ہوتے ہیں، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ سفارتی محاذ پر درپیش چیلنجز کیا پچھلے اڑھائی سال کے ہیں یا اس سے پہلے کے ہیں، ان چیلنجز کے ذمہ داران ہم سے زیادہ وہ لوگ ہیں جو چار چار دفعہ حکومت میں رہے۔ انہوں نے کہا کہ جو مسلسل بارہ بارہ برس تک کشمیر کمیٹی کی سربراہی پر متمکن رہے مگر نتائج سب کے سامنے ہیں، اس معاملہ پر سیاست نہیں کروں گا، خارجہ پالیسی کا انحصار صرف آپ کی اپنی پالیسیوں پر نہیں ہوتا بلکہ بیرونی اثرات بھی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں، بیرون ملک سفیر تعینات رہنے والے ان نزاکتوں کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان خدانخواستہ تنہا ہو گیا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے، ہاں، ہندوستان کی کوشش رہی ہے کہ ہمیں تنہا کیا جائے اگر ایسا ہوتا تو ہمیں ہیومن رائٹس کونسل میں کامیابی نہ ملتی، آج ہندوستان کی ہندوتوا پالیسیوں کے سبب دنیا بھر میں انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی سفارت کاری کا گہرا تعلق معاشی صورتحال سے ہوتا ہے، جب ہمیں حکومت ملی تو پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، اس وقت دوست ممالک اگر ہماری معاونت نہ کرتے تو صورتحال
مختلف ہوتی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے ہمارے سیاستدانوں نے اپنی سیاسی دکان چمکانے کیلئے کشمیر کے معاملے کو پیچھے دھکیل دیا، ہم خارجہ پالیسی کو سیاسی اور معاشی صورتحال سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے، جو قوتیں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی فضا پیدا کر رہی ہیں، وہ سفارتی محاذ پر پاکستان کو مشکلات سے دو چار کر رہی ہیں، اس لیے ہم نے معاشی سفارت کاری پر زور دیا، معاشی سفارت کاری محض درآمدات اور برآمدات تک محدود نہیں ہے یہ ایک جامع عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے معاشی سفارت کاری کو بروئے کار لا کر افریقہ براعظم میں برآمدات کی شرح میں سات فیصد اضافہ کیا، رواں ماہ یورپی سفرائ سے ملاقات کر رہا ہوں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات ہونے چاہئیں، ہم نے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کی، ہم نے دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے کیلئے ایپیپس میکانزم پر تشکیل دیا تاکہ کثیر الجہتی شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون کے فروغ کو یقینی بنایا جائے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ آج افغانستان کی حکومت خود اعتراف کر رہی ہے کہ پاکستان امن کوششوں میں ان کی معاونت کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ کابل کے دوران پاکستان اور افغانستان نے ایک مشترکہ وڑن پر دستخط کیے ہیں، افغانستان میں ہم نے کسی
ایک گروپ کے ساتھ خود کو منسلک نہیں کیا، ہمیں معلوم ہے کہ کون وہاں صورتحال کو خراب کرنے کے لئے کردار ادا کر رہا ہے، ہم نے ان عناصر پر نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ اور پاکستان کے نقطہ نظر میں افغانستان کے حوالے سے یکسانیت پائی جاتی ہے وہ بھی تشدد میں کمی کے خواہشمند ہیں اور ہمارا نقطہ نظر بھی یہی ہے، میری حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ سے گفتگو ہوئی جس میں دیگر موضوعات کے ساتھ، افغانستان کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی، ہمیں پاکستان کو درپیش چیلنجز کا بھی بخوبی علم ہے لیکن آگے بڑھنے کیلئے ہمارے پاس پلان بھی ہے اور سوچ بھی ہے، ہمارے دور میں ایران کے ساتھ ہمارے دو طرفہ تعلقات میں بہتری آئی، ہمارے دور حکومت میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف چھ دفعہ پاکستان تشریف لائے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات نہ صرف اچھے ہیں بلکہ ان میں مزید وسعت آ رہی ہے، پاک چین اقتصادی راہداری کے دوسرے فیز میں جامع منصوبہ جات پر کام ہو رہا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہندوستان کو وزیراعظم عمران خان نے پیغام دیا تھا کہ آپ ایک قدم بڑھائیں ہم دو بڑھائیں گے لیکن ہندوستان کی ہندوتوا سوچ نے خطے کو خطرات سے دو چار کر دیا ہے، سردمہری تو ہمارے آنے سے پہلے تھی، ہندوستان نے 26 تاریخ کو پاکستان پر حملہ کیا ہم نے اپنی صلاحیت کا بتایا لیکن
صورت حال کو مزید خراب نہیں کیا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے برادرانہ تعلقات تھے، ہیں اور رہیں گے، پاکستان کی اہمیت سے سعودی عرب بخوبی واقف ہے، انہیں مکہ اور مدینہ کے ساتھ ہماری گہری نسبت کا بخوبی علم ہے، ہمارے دور میں انہوں نے بیلنس آف پے منٹ میں ہماری مدد کی جو پچھلی حکومتیں نہ لے سکیں، سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ ایک مخصوص مدت کیلئے تھا، جب ہمارے ریزرو میں بہتری آئی تو ہم نے وہ رقم واپس کر دی۔ انہوں نے کہا کہ ابھی حال ہی میں سعودی عرب اور پاکستان نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف مشترکہ قرارداد پیش کیں، میں حال ہی میں متحدہ عرب امارات کے دورہ سے آیا ہوں میری متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کے ساتھ طویل ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ یو اے ای میں ہندوستانیوں کی تعداد پاکستانیوں سے دگنی ہے، یو اے ای کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ نے مجھے واضح کہا کہ ہمارے ہندوستان کے ساتھ تعلقات ہیں مگر وہ پاکستان کی کاسٹ پر نہیں ہیں، وہ پاکستان کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ فلسطین کے مسئلے کے ہوتے ہوئے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں گے؟ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہر ملک کو اپنی سفارتی ترجیحات کو مرتب کرنے کا حق حاصل
ہے، ہمیں اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے، جی سی سی ممالک میں بہت سے باہمی تنازعات اور سرد مہری تھی لیکن حال ہی میں اس میں بہتری آئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہمارے سے پہلے ایک حکومت تھی کشمیر کا لفظ جن کے حلق میں اٹک جاتا تھا، اس وقت کے وزرائے اعظم کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں پتہ چل جائے گا کہ کس نے کشمیر کے معاملے کو اٹھایا، کاش پیپلز پارٹی کے چیئرمین یہ نہ کہتے کہ کشمیر کا سودا کر دیا گیا، کوئی مائی کا لال کشمیر کا سودا نہیں کر سکتا، جب ہم آئے تو جنوبی ایشیا کی اسٹریٹجی نئی آئی ہوئی تھی، پاکستان جسے پرابلم پیدا کرنے والوں میں شامل کیا جاتا تھا آج اسے مسائل حل کرنے والوں میں گنا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے شواہد کے ساتھ بتایا کہ کیسے ہندوستان بلوچستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے، ای یو ڈس انفولیب کی رپورٹ آپ کے سامنے ہے، ہمارے نقطہ نظر کو سننے کا حوصلہ پیدا کریں، میں نے ہندوستان کی جانب سے بارہا پاکستان کی حدود کی مسلسل خلاف ورزیوں کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا ہے، کل میں نے ایک اور خط اس حوالے سے صدر سیکورٹی کونسل کو لکھا ہے، ہم ہندوستان کی ملٹری پوسٹ کو ٹارگٹ کرتے ہیں اور ہندوستان معصوم لوگوں کو نشانہ بناتا ہے، ہم سرحدی علاقے میں مقیم گیارہ لاکھ شہریوں کیلئے بنکر بنانے کا سوچ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں بدقسمتی سے پیپلز پارٹی کا ایک ممبر بھی موجود نہیں تھا، ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی ترجیح کیا ہے؟
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں