ناموس رسالت ﷺ کا مسئلہ مسلم امہ کومتحد ہوکر پریشر سے حل کروانا ہے، وزیراعظم عمران خان پورے عالم اسلام کی آواز بن گئے

اسلام آباد (پی این آئی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ناموس رسالت ﷺ کا مسئلہ مسلم امہ کومتحد ہوکر پریشر سے حل کروانا ہے، مغرب کو نہیں پتا ہم نبی پاک ﷺ سے ہر چیز سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں، فرانس میں جب گستاخی ہوئی تو میں نے اور ترک صدر نے آواز اٹھائی، میں نے اوآئی سی، اقوام متحدہ

ایشو کو اٹھایا، اور مسلم امہ کے سربراہان کو خطوط بھی لکھے۔وہ آج عوام کے ساتھ براہ راست سوال و جواب کے سیشن میں گفتگو کررہے تھے۔ وزیراعظم نے ایک سوال پر کہا کہ آپ مطلب حکومت ناکام ہوجائے گی، اللہ نے مجھے باقی لوگوں کی نسبت زیادہ آزمایا اور کامیابی بھی دی، زندگی کے مختلف شعبوں میں، کرکٹ میں بڑے گول سیٹ کیے ،ان میں کامیابی حاصل کی،شوکت خانم بنایا تو سب نے کہا کہ کامیاب نہیں ہوں گے،ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھنے والے کو بھی دیوانہ کہا گیا، یاد رکھیں دو جماعتیں وہاں تیسری جماعت کا آنا ناممکن ہے، ہندوستان ، امریکا یا کہیں بھی دیکھ لیں، جب بھی کوئی کام ہٹ کر کیا جائے دنیا کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی، اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ، انسان کو جو دل کہتا ہے اس کے پیچھے جانا چاہیے۔سب کہتے ہیں ریاست مدینہ کا تصور پاکستان میں ممکن نہیں، لیکن اس کو ممکن بنائیں گے،ہم سکولوں میں سیرت نبویﷺ سے متعلق مضمون رکھ رہے ہیں، مدینہ کی ریاست میں کوئی قانون سے اوپر نہیں تھا، جمہوری اور فلاحی نظام تھا، ریاست نے کمزور طبقات کی ذمہ داری لی تھی، قانون کے سامنے سب ایک برابر تھے، پاکستان ایک عظیم قوم بننے جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوئٹزرلینڈ ہرسال 80ڈالر کماتا ہے، جبکہ پاکستان 25ارب ڈالر کما تا ہے، گلگت بلتستان میں مزید سڑکیں کھلیں گی تو سیاحت بڑھے گی۔دو بڑی سڑکوں کا منصوبہ رکھاہے جس سے پورا علاقہ کھل جائے گا، گلگت بلتستان سوئٹزرلینڈ سے دوگنا خوبصورت ہے، میری جو سوچ ہے وزیراعلیٰ سے بات ہوئی ، گلگت بلتستان صنعتی نہیں اس کو ٹورازم کا حب بنائیں گے، پانی پر بجلی بنانا مشکل ہے، گلگت بلتستان میں بجلی کا مسئلہ ہے وہاں چھوٹے چھوٹے گرڈ اسٹیشنز لگائیں گے،گرڈ اسٹیشن لگانے کیلئے آرڈرز کردیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کورونا ویکسین آج ہی پاکستان میں پہنچی ہے، سب سے پہلے ہیلتھ ورکرز کو کورونا ویکسین لگائی جائے گی، دوسرے مرحلے میں 60سال سے زائد

عمر افراد کو ویکسین لگائیں گے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا رقبہ زیادہ جبکہ وہاں کی آبادی کم ہے،کم رقبے میں سہولتیں دینا آسان ہوجاتا ہے، بلوچستان میں سیاسی سیٹ اپ نے بڑا نقصان پہنچایا، سیاسی لوگوں نے وہاں کا پیسا اوپر کی طرف جاتا رہا، نچلی سطح پر پیسا خرچ نہیں ہوا،اس لیے اچھا بلدیاتی نظام ضروری ہے،میں نے تربت میں جاکربلوچستان کیلئے تاریخی بڑا پیکج دیا ہے،جنوبی بلوچستان بہت ہی پیچھے رہ گیا ہے، لوگوں کی آمدورفت، انٹرنیٹ دیا، سیکورٹی بڑا مسئلہ ہے، بلوچستان کے دوردراز کے علاقوں سمیت اندرون سندھ کو بھی ترقی دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔بلوچستان کی معدنیات کو وہاں پر ہی خرچ کریں گے، تاکہ بلوچستان کے

عوام اوپر اٹھیں۔ وزیراعظم نے گھر دینے کے وعدے پر ایک سوال کے جواب میں کہاکہ پاکستان میں کیوں سستے گھر دینے کا پروگرام لائے ہیں، دنیا میں کبھی امیر حکومت بھی گھر نہیں بنا کر دے سکتی، ہم نے بینکوں سے قرضوں کا سسٹم شروع کیا، امریکا، یورپ میں 80فیصد لوگ گھر بینکوں سے قرضہ لے کر گھر بناتے ہیں، ملائیشیاء میں 30فیصد، ہندوستان میں 10فیصد جبکہ پاکستان میں 0.1فیصد ہے، ہم عدالت میں قانون کو کلیئر کروایا اور بینکوں کو قرضوں کا ایک سسٹم بنایا، ہر جمعرات کو میٹنگ کرتے ہیں، مقص

د تنخواہ دار ، مزدور لوگ جن کے پاس گھر نہیں وہ گھر بناسکیں، 5فیصد حکومت سبسڈی دے رہی ہے، پہلے لاکھ گھروں پر 3لاکھ حکومت سبسڈی دے گی۔عوام جو گھر کا کرایہ دیتے ہیں، وہ کرائے کی جگہ قسط دیں گے گھر ان کا اپنا ہوجائے گا، بینک اب قرضوں کیلئے اشتہار بھی دے رہے ہیں۔ یہ پاکستان میں پہلی بار ہورہا ہے۔انہوں نے ناموس رسالت ﷺ کی شان میں گستاخی کے سوال پر کہا کہ 1989ء میں یہ سلسلہ شروع ہوا ، جب سلمان رشدی نے کتاب لکھی اور نبی پاک ﷺ کی شان میں گستاخی کی، یہ سلسلہ پچھلے 30 سالوں سے مغرب میں شروع ہوا، ہوتا کیا تھا کہ مسلمانوں کو اس سے شدید تکلیف پہنچتی تھی،جب پیارے رسول ﷺ کی شان میں کوئی گستانی کرتا تھا، لوگ سڑکوں پر نکلتے تھے، لیکن مغرب کو سمجھ نہیں ، وہ دین اس طرح نہیں لیتے جس طرح مسلمان سمجھتے ہیں،نبی پاک ﷺ ہمارے ہمارے تو دلوں میں رہتے ہیں۔وہ

اس کو فریڈم آف اسپیچ کا نام دیتے ہیں، میں وزیراعظم بنا تو میں نے اوآئی سی، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس ایشو کو اٹھایا، پھر ترک صدر اور مہاتیر محمد کے ساتھ ملکرمغرب کو سمجھایا، فرانس میں جب کارٹون نکلے تو ترک صدر اور میں نے آواز اٹھائی ، اس مسئلے پر ساری مسلم امہ کو ملکر بات کرنی ہوگی میں نے مسلم امہ کے قائدین کو خط بھی لکھے ہیں۔ یہ ایک جدوجہد ہے، ہمیں اس پر مسلسل کام کرنا پڑے گا، مجھے یقین ہے ہم اس میں کامیاب ہوجائیں گے۔

close