اسلام آباد (پی این آئی) وزیراعظم کے مشیر احتساب و داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے 36 (ن) لیگی رہنماوں سی24 ارب کی زمینیں واپس لینے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہسابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی سیاست کے 2 جز ہیں، ایک پیسہ جس نے چھانگا مانگا کلچر متعارف کروایا اور دوسرا
جز سیاسی سرپرستی ہے کہ ایک خاص طبقہ اعلیٰ عہدے پر فائز ہو جو کسی خدمت کیلئے نہیں ،لوٹ مار کے لیے سیاست میں آتا ہے،1947 میں جب ملک بنا تو نطریاتی سیاست ہوتی تھی اور لوگ عوام کی خدمت اور نظریاتی سیاست کرنے کیلئے آتے تھے لیکن 80 کی دہائی میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو مارشل لا کی گود میں پروان چڑھنے والے سیاست میں آئے جس کے سرغنہ نواز شریف ہیں اور انہوں نے پاکستان میں چھانگا مانگا کی سیاست کا آغاز کیا،پنجاب میں 210 ارب روپے سے زائد کی ریکوری ہوئی ہے،قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن کو اپوزیشن انتقام کا نام دیتی ہے،پی ڈی ایم کے بڑے این آر او چاہتے ہیںجو عمران خان نہیں دے گا ،اوپن بیلٹ کے ذریعے سینٹ انتخاب کروانے کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر رکھا ہے ، پارلیمان میں قانون سازی بھی کی جائے گی۔اتوار کو یہاں پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر اس تعریف کو دیکھا جائے تو یہ ایک مافیا کی تعریف ہے اور اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ نے ان کے لیے سیسیلین مافیا کا لفظ استعمال کیا تھا۔شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ ہی وہ مافیا ہے جس نے سیاست میں پیسے اور سیاسی سرپرستی کا آغاز کیا اور آج بھی ہم اسے بھگت رہے ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال لاہور میں دیکھی گئی کہ جب ان کی صاحبزادی ایک ایسے ہی سیاسی سرپرستی میں پلے ہوئے مافیا کے گھر پر کھڑے ہو کر حکومتی کارندوں اور ریاست کی رٹ کو للکار رہی تھیں اور ثابت کررہی تھیں کہ ہم نظریات کی سیاست نہیں کریں گے اور اسی لوٹ کھسوٹ کی سیات کو جاری رکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن یہ تصویر کشی کرنے کی کوشش کررہی کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، یہ رونا دھونا بنیادی طور پر اپنے تحفظ کے لیے کیا جارہا ہے اس کا کوئی اور مقصد
نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ ڈھائی سال میں صرف پنجاب سے 210 ارب روپے سے زائد کی ریکوری ہوئی جس میں سے 36 لوگوں کے نام اور تفصیلات بتا رہا ہوں اور ان تمام سیاسی افراد کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے۔36 شیڈز آف پولیٹکل کرپشن’ کے عنوان سے ایک دستاویز فراہم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال یا سرکاری زمینوں پر کیے گئے قبضوں کی تفصیلات ہیں جبکہ رشوت اور دیگر لوٹ کھسوٹ الگ معاملہ ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ ان چیزوں کے سرغنہ راولپنڈی کے کھوکھر برادران ہیں جن پر صرف قبضے کے الزام میں 3 مقدمات درج ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کھوکھر برادرا نے شیخوپورہ میں ایک ہزار 25 کنال، 7 کروڑ روپے مالیت کی ریاستی زمین پر قبضہ کیا، ان کے عالیشان محل
میں نجی لوگوں کی زمینوں کے علاوہ 45 کنال سرکاری زمین پر بھی قبضہ تھا جسے ریونیو ڈپارٹمنٹ سے ثابت کرنے کے بعد واگزار کروالیا جس مالیت ڈیڑھ ارب روپے ہے اور 2 ماہ قبل ان سے 3 ارب روپے مالیت کی 80 کنال 4 مرلے زمین بھی واگزار کروائی گئی جسے انہوں نے اپنے فرنٹ مینوں کے نام پر رکھا ہوا تھا۔مشیر احتساب نے بتایا کہ خرم دستگیر کے خاندان نے جی ٹی روڈ پر سوا 9 کروڑ روپے مالیت کی زمین پر سی این جی اسٹیشن قائم کررکھا تھا جہاں اب ایک عوامی پارک بنا دیا گیا ہے، آج بھی انہوں نے 3 کروڑ 70 لاکھ روپے تاوان کی مد میں دینے ہیں جس پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہے اور قانونی کارروائی جاری ہے۔اسی طرح خرم دستگیر ایک اور ایک کنال رقبے کی سرکاری کمرشل زمین ہر قبضہ کیا تھا جس کی مالیت 6 کروڑ روپے ہے اور وہ ان سے واگزار کروالی گئی، مجموعی طور پر ساڑھے 5 کروڑ روپے تاوان کی مد
میں انے سے برآمد کروانا ہے۔مشیر احتساب نے بتایا کہ سینیٹر چودھری تنویر سے 7 ارب روپے کی بے نامی واگزار کروائی گئی ہے اس کے علاوہ راولپنڈی میں انہوں نے ایک ارب روپے کی 27 کنال کی سرکاری زمین نجی اسکول کو کرایے پر دے رکھی تھی جس کا 20-25 لاکھ روپے کرایہ بھی وصول کررہے تھے، وہ بھی واگزار کروالی گئی۔انہوں نے کہا کہ دانیال عزیز کے والد کے نام پر 24 سو کنال سرکاری زمین تھی جو واگزار کرلی گئی اور اس کی مالیت ڈھائی ارب روپے تھی جبکہ ابھی بھی انہوں نے 4 کروڑ 80 روپے کرایے کی مد میں ادا کرنا ہے۔انہوںنے کہاکہ جاوید لطیف نے میاں فلور مل میں 8 کنال 2 مرلے سرکاری زمین دبائی ہوئی تھی جو واگزار کرالی گئی، شیخوپورہ میں غیر قانونی بس اڈہ بنایا ہوا تھا جسے ختم کروایا گیا، 30 کنال سرکاری زمین میاں پیپر مل اور بوہر مل میں قبضہ کر کے شامل کی گئی تھی اسے بھی واگزار کروالیا گیا، ہائی وے پر ان کا ایک پلازہ بھی بنا ہوا جس پر عدالتی حکم امتناع ہے اور کارروائی جاری ہے۔شہزاد اکبر
نے کہا کہ عابد شیر علی سے جھنگ روڈ پر 2 ارب روپے کی سرکاری زمین واگزار کروائی گئی جو اسے آگے فروخت کررہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اس فہرست میں جاوید ہاشمی کے داماد بھی شامل ہیں جن سے اوقاف کی 7 ایکڑ زرعی زمین واگزار کروائی گئی۔انہوں نے بتایا کہ مائزہ حمید کے شوہر نے محکمہ آب پاشی کی 70 ایکڑ زمین پر 2015 سے قبضہ کررکھا تھا جس کی مالیت 10 کروڑ روپے سے زائد ہے اور واگزار کروائی جارہی ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ خاصی طویل فہرست ہے لیکن ابھی صرف 36 افراد کے نام شیئر کیے گئے ہیں، جن سے 24 ارب روپے کی ریکوری ہوئی اور 8 ہزار 85 ایکڑ زمین واگزار کروا کر قومی خزانے میں جمع کروادی گئی ہے۔شہزاد اکبر نے کہاکہ حکومت کا مقصد ہے کہ قبضہ کیے گئے سرکاری وسائل واپس
لیے جائیں اور عوامی فلاح کے کام کیے جائیں۔انہوںنے کہاکہ پوری پی ڈی ایم کا مقصد ذاتی مفاد کا تحفظ ہے، انہوں نے حکومت کے ساتھ قانون سازی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں بھی اس کا اعتراف کیا تھا، ان کے بڑے این آر او چاہتے ہیں اور باقی افراد جنہوں نے ان سرکاری وسائل پر قبضہ کر رکھا تھا اس کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔شہزاد اکبر نے کہا کہ جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے محکمہ انسداد بدعنوانی کی کارکردگی بہترین رہی ہے۔مشیر احتساب نے کہا کہ دوسری جگہ سینیٹ میں سب سے زیادہ پیسے کی سیاست ہوتی ہے جہاں اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخاب کروانے کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر رکھا ہے اور پارلیمان میں قانون سازی بھی کی جائے گی، یہ وہ موقع ہے کہ جب یہ سیاسی جماعتیں
بتائیں کہ ان کا کیا نظریہ ہے۔معاون خصوصی نے کہا کہ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ ان سے سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے، ان کا رونا دھونا اپنے بچاؤ کے لئے ہے، اپوزیشن سے جب بھی بات کرنے کی کوشش کی انہوں نے صرف این آراو کہا، (ن) لیگ کی ساری چیخ و پکار کے پیچھے یہ چوری کی زمینیں ہیں، اراضی واگزار کرانے پر لینڈ مافیاز واویلا مچا رہے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں