کراچی (این این آئی) ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ نیب کو تاجر برادری کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ تاجر وصنعتکار پہلے ہی ایف بی آر، ایف آئی اے، ایس ای سی پی و دیگر محکموں کے ساتھ معاملات میں الجھے ہوئے ہیں اس لیے نیب کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ
نیب اپنی سرگرمیاں صرف پبلک سیکٹر اور سیاستدانوں تک ہی محدود رکھے انہوں نے تاجربرادری کو مشورہ دیا ہے کہ وہ زیرو ریٹنگ، گیس بحران، سیلز ٹیکس سمیت اپنے تمام تر مسائل سے ان کو آگاہ کریں اور اس حوالے سے تفصیلات پریزینٹیشن کی صورت میں فراہم کی جائیں تاکہ وہ مسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور بعدازاں انہیں متعلقہ وزراء کے سامنے اٹھاسکیں جن میں اسد عمر ،رزاق داؤد اور دیگر شامل ہیں۔ تاجر برادری کو حکومت کے تمام امور میں حصہ لے کر اہم کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ تاجر اور صنعتکار ہی زمینی حقائق کو جانتے ہیں اور ہر قسم کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات ہفتہ کو کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی )کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا، انجم نثار، اے کیو خلیل، صدر کے سی سی آئی شارق وہرا، سینئر نائب صدر ثاقب گڈلک، نائب صدر شمس الاسلام خان، چیئرمین سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری عبد الہادی، سابق صدور اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی اجلاس میں شریک تھے۔ سلیم مانڈوی والا نے سائٹ ایریا کے خستہ حال انفرااسٹرکچر پر اظہار تشویش کے جواب میں کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ حکومت سندھ نے گذشتہ 12 سالوں میں کچھ بھی نہیں کیا کیونکہ کراچی کے انفرااسٹرکچرکو بہتر بنانے کے
لیے وقتاً فوقتاً مختلف اقدامات اٹھائے گئے ہیںتاہم اب بھی صورتحال 100فیصد نہیں لہٰذا کراچی چیمبر کی تاجر برادری پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت سندھ حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ نہ صرف سائٹ ایریا بلکہ دیگر صنعتی زونز کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنایا جاسکے جس کی کوئی وزیر مخالفت نہیں کرے گا۔انہوں نے انڈینٹرز کی خدمات پر سیلز ٹیکس کے مسئلے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کو حل کرنے اور تبادلہ خیال کے لیے چیئرمین ایف بی آر اور چیئرمین ایس آر بی کو اپنے دفتر میں طلب کریں گے۔ انہوںنے کہاکہ وہ تاجر برادری کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں ، صرف ایک فون کال کی دوری پر ہیں، اپنے دفتر میں شکایات کو سننے کے لیے دستیاب ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے ہر ممکنہ راستہ اختیار کریں گے۔انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں قومی احتساب بیورو (نیب) کا نشانہ بننے والے تاجروں سے ملک بھر سے بہت سی درخواستیں موصول ہوئی ہیں، نیب کو چاہیئے کہ وہ کے سی سی آئی میں ہیلپ ڈیسک کھول کر کراچی تاجربرادری کو سہولیات فراہم کرے جیسا کہ اسلام آباد چیمبر میں کیا گیا ہے، دنیا بھر کے چیمبرز حکومتی امور میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن پاکستان میں چیمبرز کو کوئی حکومتی کردار نہیں دیا گیا جو بدقسمتی کی بات ہے، چیمبرز کی سرگرمیاں صرف بجٹ تجاویز اور معاشی پالیسیوں تک ہی محدود
نہیں رہنی چاہیے بلکہ انہیں تمام اجلاسوں اور یہاں تک کہ سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا چاہیے چونکہ تاجر برادری سے زیادہ زمینی حقائق کو کوئی نہیں جانتا اور یہی تاجر خراب پالیسیوں کی وجہ سے ہر طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں۔کراچی چیمبر کے صدر ایم شارق وہرا نے اس بات پر زور دیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کراچی کے معاملات پر توجہ دینا چاہیے اور انہیں کراچی کے تمام صنعتی زونز کے خستہ حال انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنا چاہیے خاص طور پر سائٹ جیسے علاقوں میں جہاں سڑک کا نیٹ ورک بمشکل موجودہے۔چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے کراچی کے خستہ حال انفرااسٹرکچر کی وجہ سے تاجر برادری کو درپیش مشکلات اور دشواریوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف سائٹ ایریا کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تمام صنعتی زونز میں انفرااسٹرکچر کی صورتحال انتہائی بھیانک ہے،سائٹ ایریا کے انفرااسٹرکچرکو بہتر بنانے کے لیے پی سی ون کی منظوری دی گئی ہے اور 23 سڑکوں کی تعمیر کے لیے ایک ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے لیکن اب تک ترقیاتی کام شروع نہیں ہوسکا،سائٹ کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کی ذمہ دار سائٹ لمٹیڈہے لیکن اس کی اپنی حالت بہت خراب ہے، سائٹ لمیٹڈ میں 400 افراد کو ملازمت دینے کی گنجائش ہے لیکن اس ادارے میں 1700 ورکرز کو
بھرتی کیا گیا۔ فاسٹ سسٹم کے ذریعے ریفنڈ کلیمز کے اجراء کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نظام کتنا ہی مؤثر کیوں نہ ہو 170 ارب روپے کے ریفنڈ پھنسے ہی رہیں گے جس کی وجہ سے برآمدکنندگان شدید مالی بحران کا سامنا ہوتا ہے، ہمیں برابری کی بنیاد پر کاروباری مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے لہذا حکومت زیرو ریٹنگ کی سہولت کو دوبارہ متعارف کرانے کے امکانات پر غور کرے جس کی برآمد کنندگان کو مسابقت کے قابل رہنے کے لیے بہت زیادہ ضرورت ہے ورنہ آج کل خصوصاً ٹیکسٹائل کے شعبے میں دیکھی جانے والی ترقی مستحکم نہیںرہ سکے گی۔بی ایم جی کے وائس چیئرمین انجم نثار نے ویتنام جیسے ملکوں میں کاروبار کو آسان بنانے اور کاروبار دوست پالیسیوں کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا جہاں ایک ہی ماہ میں برآمدات میں37ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ پالیسیوں میں اچانک تبدیلیوں سے سختی سے گریز کرنا چاہیے تاکہ تاجر برادری ٹیکس سے متعلقہ اور دیگر پالیسی امور کو حل کرنے کے لیے سال بھر الجھنے کی بجائے اپنے کام پر توجہ دے سکے۔بی ایم جی اے کے جنرل سکریٹری اے کیو خلیل نے کاروبار دشمن فیصلوں اور پالیسیوں کے خلاف سلیم مانڈی والا کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے ان سے کنٹینرز کی کلیئرنس میں تاخیر کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تعاون بھی طلب کیا باالخصوص خام مال سے لدے کنٹینرز
جس سے نہ صرف برآمدات بلکہ مقامی پیداوار پر بھی بہت اثر پڑتا ہے۔انہوں نے کہاکہ تاجر برادری ٹیکسوں کے سنگین مسائل کا سامنا کر رہی ہے خاص طور پر انڈینٹرز کی خدمات پر سیلز ٹیکس لہٰذا ایس آر بی اور ایف بی آر کو سازگار کاروباری ماحول کی فراہمی کی طرف توجہ دینا چاہیے۔ ۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں