پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے کورونا متاثرین کیلئے اکٹھے ہونیوالے 1 ارب 16کروڑ سے زائد کے فنڈز استعمال نہیں ہو سکے‘ پنجاب اسمبلی میں انکشاف

لاہور( این این آئی)پنجاب اسمبلی کے ایوان میں محکمہ خزانہ پنجاب کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے کورونا متاثرین کیلئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کی مد میں اکٹھے ہونے والے 1 ارب 16کروڑ 55لاکھ روپے کے فنڈز خرچ نہیں کئے جا سکے ، فنڈز کے استعمال کے

لئے پالیسی بنائی جارہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ فنڈ ویکسین کیلئے استعمال کئے جائیں،جبکہ حکومت نے ایمرسن یونیورسٹی ملتان، سیاحت، ثقافت وقومی ورثہ اتھارٹی اورراوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ترمیمی) کے مسودات قوانین ایوان میں پیش کر دئیے ۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز بھی مقررہ وقت کی بجائے دو گھنٹے کی غیر معمولی تاخیر سے پینل آف چیئر میں میاں محمد شفیع کی صدارت میں شروع ہوا۔اجلاس میں محکمہ خزانہ کے بارے میں متعلقہ وزیر مخدوم ہاشم جواں بخت نے سوالوں کے جوابات دیئے ۔صوبائی وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت نے ایوان میں بتایا کہ کورونا وباء کے دوران سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور عطیات سے ایک ارب روپے کے فنڈز جمع ہوئے تاہم اس کے استعمال کے حوالے سے پالیسی نہ ہونے کے باعث فنڈز کو خرچ نہیں کیا جا سکا ۔(ن) لیگی رکن اسمبلی ربیعہ نصرت نے کورونا کنٹرول فنڈز کی رقم استعمال نہ کرنے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ کورونا اپنے عروج پر ہے کورونا کنٹرول فنڈز میں خطیر رقم ہونے کے باجود حکومت کچھ نہیں کر رہی ۔کورونا وائرس کے باعث صوبے میں روزانہ کی بنیاد پر قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہے ،حکومت کس چیز کا انتظار کر رہی ہے؟کیا اموات میں مزید اضافے کا انتظار ہے؟جس پر صوبائی وزیر ہاشم جواں بخت نے اپنے جواب میں کہا کہ کورونا کنٹرول فنڈز میں ابتک

1ارب 16 کروڑ 55لاکھ سے زائد جمع ہو چکے ہیں۔کورونا فنڈز میں سرکاری ملامین ایک سے 16 تک کی ایک دن کی تنخواہ کاٹی گئی ہے۔گریڈ 17 سے 19 کی دو دن کی تنخواہ، 20 اور 20 سے اوپر والے ملازمین کی تین دن کی تنخواہوں کی کٹوتی کی گئی کورونا فنڈز برائے چیف منسٹر کے اکائونٹ میں جمع ہوا ہے۔حکومت پنجاب نے کورونا کنٹرول کیلئے فنڈز قائم کر رکھا ہے۔حکومت پنجاب اس رقم کو خرچ کرنے کیلئے مختلف آپریشنز پر غور کر رہی ہے، حکومت کورونا کنٹرول فنڈز سے پلاننگ کر رہی ہے کہ کورونا ویکسین خریدے۔کورونا ویکسین،کورونا کے دوران نوکریوں پر تعینات ملازمین کی تنخواہوں کیلئے استعمال کریں گئے۔رکن اسمبلی اسوہ نآفتاب اور میاں نصیر نے وزیر خزانہ سے سوال کیا کہ روٹی کی قیمت کیا ہے۔؟کیا آٹے پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔کیا یہ سچ ہے کہ روٹی 10 سے 15روپے کی فروخت ہو رہی ہے۔ ؟ جس پر وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے کہا کہ حکومت نے آٹا پر ٹیکس نہیں لگایا۔آٹے کی قیمت میں اضافہ ڈیمانڈ اورسپلائی کی وجہ سے ہوا۔وفقہ سولات کے بعد اقلیتی رکن رمیش سنگھ اروڑا نے بھارت میں کسانوں پرریاستی تشدد کی شدید الفاظ میں مذمتی کی اور کہا کہ اس بہیماینہ سلوک کے خلاف مذمتی قراداد آنی چاہیے ۔رکن اسمبلی مخدوم عثمان نے وقفہ سوالات کے دوران تجویز پیش کی کہ اسمبلی اجلاس کے دوران اراکین اسمبلی کی سہولت کے

لئے نادرااور محکمہ پارسپورٹ اینڈ امیگریشن کے کاونٹرزبھی اسمبلی سیکرٹریٹ میں بنائے جائیں جس پر چیئرمین میاں شفیع محمد نے ا س پر عمل درامد کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ اپوزیشن اراکین رانا مشہود احمد خاں ، سید حسن مرتضیٰ اور ملک احمد خاں نے پوائنٹ آف آرڈرپر بات کر تے ہوئے کہا کہ جب طلباء کی کلاسز آن لائن ہوتی ہیں تو ان کے امتحانات بھی آن لائن لیے جائیں اور فیسوں میں خاطر خواہ کمی کی جائے اور ان کے مطالبات کے حل کیلئے احتجاج کو تشدد کا نشانہ نہ بنایاجائے۔ اس ضمن میں سپیکر چودھری پرویز الٰہی کی زیرِ صدارت میں ایک کمیٹی بنانے کی بھی تجویز پیش کی گئی کہ معزز اراکین اسمبلی، طلباء اوریونیورسٹی فیکلٹی ممبران پر مشتمل ہو جو اس مسئلہ کا حل نکالیں ۔صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے بھی پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کی حمایت کی ۔اجلاس میں حکومت کی جانب سے ایمرسن یونیورسٹی ملتان2021، مسودہ پنجاب سیاحت، ثقافت وقومی ورثہ اتھارٹی 2021 اور مسودہ قانون (ترمیم) راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی 2021اسمبلی میں پیش کئے گئے جنہیں متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کر کے ساٹھ روز میں رپورٹ طلب کر لی گئی۔پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق کسانوں پر سالانہ زرعی آمدن انکم ٹیکس یکم جولائی 1997 سے نافذالعمل ہے۔پرانے شیڈول کے تحت 48 لاکھ تک زرعی آمدن پر 6 لاکھ 67ہزار 500 زرعی ٹیکس بنتا ہے، یکم جولائی 2019 سے نافذ ہونے والے ریٹس کے

مطابق 48 لاکھ تک زرعی آمدن پر 3 لاکھ ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔موجودہ حکومت نے 3 لاکھ 67 ہزار 500 روپے زرعی ٹیکس میں چھوٹ دی ہے۔اس سے یہ ظاہر ہے کہ زرعی آمدن پر ٹیکس کاروباری شخصیات پر ٹیکس کی شرح کے قریب ہے۔موجودہ حکومت یکم جولائی 2019 سے زرعی انکم ٹیکس میں استثنا کو 80ہزار سے بڑھا کر 4 لاکھ روپے کرچکی ہے۔زرعی انکم ٹیکس کی شرح ملازمین اور کاروباری طبقہ پر عائد ٹیکس کی شرح سے کم ہے۔زرعی آمدن پر چھوٹ کی حد 80 ہزار تھی جو 2019 سے بڑھا کر 4 لاکھ کر دی گئی ہے۔ایسے کاشتکار جن کی سالانہ آمدن 4 لاکھ سے 8 لاکھ تک ہے ان کو ایک ہزار ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔8لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ زرعی آمدن تک 2ہزار ٹیکس وصول کیا جاتا یے۔سرکاری ملازمین اور کاروباری شخصیات کیلئے انکم ٹیکس وفاقی حکومت وصول کر تی ہے،جس میں چھوٹ کی حد 4 لاکھ روپے تھی جو یکم جولائی 2019 سے 6لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔پینل آف چیئرمین نے ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس یکم فروری دوپہر دو بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں