’مولانا فضل الرحمٰن کو ملا عمر بننے پر مجبور نہ کیا جائے، باقی مرضی ہے پاکستان میں اپنی مرضی چلانے والوں کی‘ سینئر صحافی نے خبردارکر دیا

اسلام آباد (پی این آئی)سینئر صحافی سلیم صافی کا اپنے کالم ’مولانا فضل الرحمن خطرناک کیوں ‘ میں کہنا ہے کہ ابتدائی دنوں میں مولانا فضل الرحمن اپنے اسلاف کی طرح اسٹیبشلمنٹ کی مخالف سمت میں چل رہے تھے تاہم جب افغانستان میں دیو بندی طالبان اسٹیبشلمنٹ کے فیورٹ بنے تو مولانا فضل الرحمن کی نہ صرف دوستی

ہو گئی بلکہ انہوں نے ان کے ساتھ جوڑ توڑ اور مصلحتوں کی سیاست شروع کی اور 2018ء تک کرتے رہے لیکن الیکشن کے بعد مولانا دو وجوہات کی وجہ سے برہم ہوئے۔ایک تو وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ دہی اور دھاندلی سے کام لیا گیا اور وہ ٹھیک سمجھتے ہیں اور دوسرا وہ عمران خان کے بارے میں سازشی تھیوریز پر یقین رکھتے ہیں۔حالیہ انتخابات کے بعد جب پی پی پی اور ن لیگ اپنی ڈیل کی کوششوں میں مصروف تھیں تو مولانا فضل الرحمن عمران اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف تسلسل کے ساتھ اپوزیشن کرتے رہے۔گذشتہ سال وہ دھرنا دینے آئے اور اب ان کی ناراضی میں یہ بات بھی شامل ہو گئی ہے کہ جن وعدوں کی بنیاد پر ان کو اٹھایا گیا وہ پورے نہیں ہوئے۔سلیم صافی مزید لکھتے ہیں کہ مولانا کا رویہ دن بدن تلخ ہو رہا ہے کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ انہیں تنہا کر کے حساب برابر کیا جائے لیکن مولانا اس مرتبہ تنہا نہیں ہوں گے۔اگر ان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو یہ عمل جتنا عمران خان کے لیے فائدے مند ہو گا۔اتنا ریاست کے لیے نقصان دہ ہو گا۔اس وقت قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں یا تو پی ڈی ایم کا بیانیہ چل رہا ہے یا پھر بلوچ قوم پرستوں کا۔ابھی تک دونوں فالٹ لائنز میں ان قوتوں کو جے یو آئی کارنر کر رہی تھی کیونکہ وہ اسلام اور پاکستان کی بات کر رہی تھی۔اگر مولانا بھی منظور پشتین ، محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل جیسی زبان استعمال کرنے لگے تو ان علاقوں میں ریاست کا دفاع کرنے والی سیاست قوت کوئی نہیں رہے گی۔یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئیے کہ مولانا نسلاَ افغان ہیں، ان کا ناصر قبیلہ ماضی میں افغانستان سے ڈی آئی خان منتقل ہوا تھا۔گذشتہ 20 برسوں میں ہم نے مولانا کو حامد کرزئی طرز کی سیاست کرتے دیکھا ہے لیکن اگر ان کو دیوار سے لگایا گیا تو خاکم بدہن ، وہ ملا عمر بن سکتے ہیں۔اس لیے میری گزارش ہے کہ مولانا کو حامد کرزئی رہنے دیا جائے۔ملا عمر بننے پر مجبور نہ کیا جائے،باقی مرضی ہے پاکستان میں اپنی مرضی چلانے والوں کی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں