وزارت پیٹرولیم نے اربوں کا نقصان کیا مگر غلط بیانی سے بازنہیں آرہی،شاہزیب خانزادہ کے چشم کشاانکشافات


اسلام آباد(پی این آئی)122ارب روپے کا دوسال میں نقصان ہوگیا۔35 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ان سردیوں میں ایل این جی کی خریداری میں ہوگیا۔50ارب روپے سے زائد کا نقصان صرف ان سردیوں میں وقت پر ایل این جی نہ خریدنے کی وجہ سے مہنگی ایل این جی اور فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کرنے کی وجہ سے ہوگیامگر وزارت پیٹرولیم فیصلہ نہیں کرپارہی کہ اس کی

پالیسی کیا ہے۔نجی ٹی وی پراپنے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شاہزیب خانزادہ نے دعویٰ کیا کہ وزارت پیٹرولیم مسلسل غلط بیانیاں کررہی ہے۔نومبر، دسمبر، جنوری اور فروری میں دیر سے مہنگی ایل این جی خریدنے کے بعداس بات کا ادراک کیا کہ وقت پر ٹینڈر کرنا چاہیے ،اس لیے 28دسمبر کو اپریل کے لیے ایل این جی خریدنے کا اشتہار دے دیا۔اور پھر جب 23سے 24فروری کے لیے 20.8فی صد پر ایل این جی سپلائی کرنیوالی کمپنی نے انکار کردیا تو وزارت پیٹرولیم نے پریس ریلیز کے ذریعے بتایا کہ ہم نے سیکنڈ اور تھرڈ Lowestبڈر سے درخواست کی ہے لیکن انہوں نے بھی منع کردیا ہے۔یعنی 20.8 فیصد پر سپلائی کرنے والی کمپنی کے انکار کے بعد،وزارت پیٹرولیم نے 22.11فی صد کے دوسرے بڈراورپھر 23.5فی صد کے تیسرے بڈر سے بھی اتنی مہنگی ایل این جی خریدنے کی درخواست کی مگر انہوں نے بھی انکارکردیاتو پھر ایمرجنسی ٹینڈر کیاپھر 21 سے 22فروری کے لیے 19.5 سے24.8فی صد تک کا ریٹ آیااور 25 سے 26فروری کے لیے 16.3 فی صد سے 27.7فی صدکی بڈز آئیں۔تو حکومت نے ایک کارگو قطر سے 16.3 فی صد پر لینے کا فیصلہ کیااور پھرندیم بابر صاحب نے کہہ دیا کہ اس سے ثابت ہوگیا ہے کہ بڈ کی تاریخ اور ڈیلیوری کی تاریخ میں زیادہ دن ہونے سے فرق نہیں پڑتاکیونکہ پچھلے ٹینڈر میں یہ 49دن تھی اور اب کم ریٹ پر 35 دن ہے۔یعنی جو غلطی سردیوں کے ہائی ڈیمانڈ مہینوں میں بار بار دہرائی اور اپریل کے لیے دسمبر میں اشتہار دے کر اپنی تصحیح کی۔35ارب روپے سے زائد کا نقصان کردیا۔اب ایک ٹینڈر کے بعد حکومت کہہ رہی ہے کہ ایک ارب روپے بچ گئے،جس سے ثابت ہوگیا کہ جلدی ٹینڈر کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔حالانکہ جنوری کے لیے دیر سے ٹینڈر کیا تو سپلائر نہیں آئے۔پھرکچھ دن بعد ایمرجنسی ٹینڈر کیا تو تاریخ کا بلند ترین40فی صد تک کا ریٹ ملا اور حکومت نے ایل این جی لی ہی نہیں۔اور عوام اور انڈسٹری کو گیس کا شدید بحران بھگتنا پڑا۔پھر فروری کے لیے دونوں سپلائرز کے مکر جانے کی خبر آئی۔پہلا سپلائر جو آذر بائیجان کی کمپنی سوکار ہے،جو 15فروری کے لیے 23.4 فی صد پر ایل این جی سپلائی کرے گی۔مگر رپورٹ ہوئی کہ حکومت نے آذر بائیجان کی حکومت کو راضی کیا کہ اسی ریٹ پر سپلائی کرے۔اگر دیر سے ٹینڈر کرنے سے فرق نہیں پڑتا تو حکومت نے کیوں

آذر بائیجان کی حکومت پر زور دیا۔23.4 فیصد کی بڈ پر ڈیفالٹ کے بعدبڈز بانڈ ضبط کرتے اور سستی ایل این جی خرید لیتا۔اگر فرق نہیں پڑتا تو جنوری کے لیے 10دسمبر کو دیر سے ٹینڈر کرنے کی وجہ سے جب جنوری کیلیے سپلائرز نہیں آئے تو اس کے بعد یمرجنسی ٹینڈر میں کیوں 40فی صد کا بلند ترین ریٹ ملا۔فرق پڑتا ہے۔ایک bullishمارکیٹ میں سردیوں کی ہائی ڈیمانڈ کے ساتھ ساتھ سپلائی متاثر ہونے سے فرق پڑتا ہے اور یہ فرق 35ارب روپے سے زائد کے نقصان کی

صورت میں پاکستان نے ان سردیوں میں ادا کیا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ حکومت یہی ایل این جی چار ماہ پہلے 11 سے12فی صد پر 5سے 6 ڈالرز میں خرید سکتی تھی۔بھارت اور دیگر ممالک نے خریدی بھی۔جس کا ہم بار بار پروگرام میں ذکر کرتے رہے،مگر 11سے 12فی صد پر خریدنے کے بجائے20.8فی صد کے سپلائر کے بھاگنے کے بعد16.3 فی صد کی قطر سے ایل این جی خریدنے کیبعد،حکومت یہ بتارہی ہے کہ ایک ارب روپے بچ گئے۔حالاں کہ وقت پر فیصلے ہوتے تو 35ارب روپے سے زائد صرف 5ماہ میں ضائع نہ ہوتے۔ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت اسی قطر سے 16.3 فی صد پر گیس خرید کر خوش ہورہی ہے،جس سے 13.3 فی صد پر ن لیگ نے ڈیل کی

اورحکومت مسلسل کرپشن کا الزام لگاتی رہی۔23اکتوبر کو وزیراعظم نے کہا کہ سسی ایل این جی مل رہی ہے،مگر طویل مدتی معاہدوں کی وجہ سے نہیں خرید پارہے اوراس کے بعد ایک مہینہ ایسا نہیں ہے کہ جب ایک بھی کارگو حکومت نے قطر سے معاہدے یا ن لیگ کے طویل مدتی معاہدوں کی 12.8فیصد کی اوسط سے نیچے خریدا ہو۔مگر حکومت 16.3فی صد پر اسی قطر سے ایک کارگو خرید کرخوش ہے،حالاں کہ چار ماہ پہلے یہی گیس 11سے 12 فیصد پر مل رہی تھی۔مگر نومبرمیں 3، دسمبر میں 6، جنوری میں 3اور فروری میں دو کارگو ۔۔ اربوں روپے مہنگے خریدے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اگست میں پاکستان نے تاریخ کی سستی ترین ایل این جی خریدی۔ہم نے ندیم بابر سے

پوچھا کہ آپ اسی وقت مزید سستی ایل این جی کیوں نہیں لی تو انہوں نے کہا کہ اس ایک کارگو کی مثال نہ دیں۔یہ ایک Distressed-cargoتھا۔پھر ندیم بابر خود ایک کارگو کی مثالیں دیتے رہے۔اہم بات یہ ہے کہ ستمبر سے پتا تھا کہ مارکیٹ bullishہے۔یعنی قیمتیں بڑھیں گی۔بین الاقوامی جریدے باربار یہی لکھ رہے تھے۔کہ ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے، سپلائی کے مسائل ہیں۔مگر بار بار اربوں کا نقصان الگ کیا۔اورگیس کا بحران الگ پیدا کیا۔حالاں کہ ٹینڈر کرنے میں حرج کیا تھا؟ٹینڈر کریں

اور زیادہ قیمتیں آجائیں تو دوبارہ ٹینڈر کردیں۔جیسا کہ مارچ کے لیے حکومت کررہی ہے۔مگر کیوں کہ ایک غلطی ہوگئی تو اس کی تصحیح کے بجائے بار بار غلط بیانی کی گئی اور بار بار نقصان کیا گیا۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت ڈیرھ سال سے طویل مدتی معاہدوں کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی اور پھر آج ندیم بابر طویل مدتی معاہدوں کوملاکر قیمت بتارہے ہیں۔فروری کے مہینے سے طویل مدتی معاہدوں کو الگ کریں تو گزشتہ حکومت کے طویل مدتی معاہدوں سے

حکومت نے سواچھ ڈالرز کی ایل این جی خرید ی ہے،اور اس حکومت نے اسپاٹ پر 10 ڈالرز کی ایل این جی خرید ی ہے،یعنی 2 کارگوز پر 4ارب روپے زیادہ ۔اور اگر اسکا چار ماہ پہلے کی قیمت سے موازنہ کریں تو5ارب روپے کا نقصان کیا ہے۔صرف دو کارگو پر یہی صورتحال دیگر مہینوں میں ہے،جنوری میں طویل مدتی معاہدوں سے ساڑھے 5 ڈالرز کیایل این جی خریدی،اور خود حکومت نے ساڑھے 7ڈالرز کی ایل این جی خریدی۔اور جنوری کے شروع کے15 دنوں میں توایل این جی

خرید ہی نہیں سکے اور پھر بھی گزشتہ برس سے موازنہ کیا جارہا ہے۔ دسمبر میں طویل مدتی معاہدوں سے سوا5 ڈالرز کیایل این جی خریدی،اور خود اس حکومت نیا سپاٹ پر7ڈالرز کیایل این جی خریدی۔مگر مسلسل ان طویل مدتی معاہدوں پر الزام لگانے کے بعدحکومت اپنی ایل این جی کی خریداری کو کم دکھانے کے لییانہی معاہدوں کو ملا کر قیمت بتارہی ہے۔اور پھر چھ ماہ پہلے کی

قیمت سے موازنہ کرنے کے بجائیاور دیر سے خریداری کرکے اربوں کے نقصان کی غلطی چھپانے کے لیے ندیم بابر ۔ دسمبر 2017کا حوالہ دے رہے ہیں۔جب تیل کی قیمت 60 ڈالرز فی بیرل تھی۔اور اس دسمبر میں حکومت نے 40ڈالرز فی بیرل کی تین ماہ کی اوسط پر گیس خریدی ہے۔اگر کل کو تیل کی قیمتیں 100 ڈالرز فی بیرل ہوجائیں اور حکومت 10فی صد پر بھی

ایل این جی خریدے تو کیا اس حکومت پر الزام درست ہوگا؟اس میں ایک سبق ہے اور وہ یہ کہمارکیٹ میں قیمتیں گرنے کے بعد اگر حکومت اس وقت پچھلی حکومت پر الزام تراشی کے بجائے بہتر معاہدے کرنے پر توجہ دیتی تو ملک کے اربوں روپے بچ جاتے۔کورونا کے د وران مختلف ممالک نے اور کمپنیوں نے 10 سے 11فیصد پرایل این جی کے طویل مدتی سودے کیے،اورحکومت نے

پچھلی حکومت پر الزام تراشی کرکے وقت ضائع کیا،اورآج فروری میں 16.3 فیصد اور جنوری میں 17فی صد پر قطر سے ایل این جی خرید کرحکومت خوش ہے۔جب کہ 13.3فی صد پر کرپشن کا الزام لگارہی تھی۔سبق یہ ہے کہ اب گرمیوں میں دوبارہ قیمتیں نیچے جائیں تو حکومت بہترفیصلے کرے نہ کہ غلطیوں کا دفاع کرے اورپھر دفاع کرتے کرتے ان غلطیوں کو دہراتی چلی جائے اور اربوں روپے کا نقصان کرتی چلی جائے۔طویل مدتی معاہدوں کے آپشنز پر غور کرے اور آئندہ سردیوں میں ملک کو آخری وقت تک مارکیٹ کے اتارچڑھاو پر نہ چھوڑے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں

close