لاہور (پی این آئی) لندن سے بڑی خبر آگئی، سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے حکومت کو بڑی پیشکش کر دی ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے کہا ہے کہ میرے والد پر ایک ارب ڈالر کا الزام ڈرامے، جھوٹ اور پروپیگنڈے کا حصہ ہے ۔آپ ایک ارب ڈالر کہیں پر
دکھا دیں، 90 فیصد آپ رکھ لیں، 10 فیصد مجھے دے دیں ۔ انہوں نے کہا کہ منتخب وزیراعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کیا گیا ۔ان کے اس ڈرامے نے ملک کو نقصان پہنچایا۔ ریاست پاکستان کو اس سارے ڈرامے کے لیے 6 کروڑ ڈالر ادا کرنا پڑے ۔ مسلم لیگ (ن) نے براڈ شیٹ معاملے کی تحقیقات کیلئے نامزد کمیشن کے سربراہ کو مسترد کر دیا، ملزمان کو بچانے کیلئے کمیشن بنا کر جسٹس عظمت سعید کو لگایا گیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے براڈ شیٹ معاملے کی تحقیقات کے لیے نامزد کمیشن کے سربراہ کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ جسٹس عظمت سعید کی جگہ ایک غیرمتنازع آدمی کو مقرر کیا جائے۔پارلیمنٹ لاجزاسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وزا نے بجلی ایک روپے 90 پیسے مہنگی کرنے کا بتایا لیکن اس کی وجہ نہیں بتائی حالانکہ تیل کی قیمتیں کم ہورہی ہیں اور بجلی بنانے کی قیمت سستی ہو رہی لیکن بجلی کا نرخ اور قیمت بھی بڑھائی جارہی ہے اور ساتھ گردشی قرضے میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے یہاں پارلیمنٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس رکھی تھی لیکن صحافیوں کو یہاں آنے سے روک دیا گیا کیونکہ ہم آج براڈ شیٹ کے بارے میں بات کریں گے اور بہت سے پردہ نشینوں کے نام سامنے آئیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ نام نہاد احتساب کی حقیقت آج عوام کے سامنے آچکی ہے، دستاویزات سامنے آرہی ہیں اور کمیشن پر کمیشن بنائے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں یہ وہ حکومت
ہے جس نیپارلیمان کو مفلوج کردیا ہے اورپارلیمان کی آواز دبانے کے لیے ہرکوشش کی ہے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ قومی اسمبلی کی عمارت کے باہر گزشتہ 10 سال سے میڈیا موجود ہوتا تھا اور مسائل پر کھل کر بات ہوتی تھی لیکن پہلے اس کو ختم کردیا گیا اور آج جہاں اراکین پارلیمنٹ رہتے ہیں وہاں بھی آزادی صلب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جو گیس سرپلس چھوڑ کر گئے تھے، جس کو وزیراعظم سے لے کر آخری وزیر جس کو پتہ نہیں ہوتا تھا وہ بھی کہتا تھا کہ مہنگی ایل این جی لے لی اور آج اس حکومت نے 3 سے 5 گنا مہنگی ایل این جی خریدی لیکن دینے والے نے پھر بھی نہیں دیا۔انہوں نے کہا کہ آج صنعت، بجلی بنانے، سی این جی اورنہ ہی گھروں میں گیس ہے لیکن قیمت ہر روز بڑھتی جارہی ہے، بجلی کی قیمت لوگوں کی دسترس سے باہر ہوگئی ہے۔حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزرا یہ بتانے
سے قاصر ہیں کہ وہ ناکام کیوں ہوئے، یہ ناکامی صرف نااہلی، نالائقی پر مبنی نہیں ہے بلکہ کرپشن کا ذریعہ ہے، آج پاکستان کی کرپٹ ترین حکومت اقتدار میں ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں ہر چیز اور ادارے دیکھ لیں کرپشن کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، پنجاب حکومت میں ہر نوکری بک رہی ہے اورہر چیز پر سودا ہو رہا ہے۔براڈ شیٹ معاملے پر بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ براڈ شیٹ کا معاملہ 14 صفحے کے ایک معاہدے سے شروع ہوا، جون 2000 میں اس پر دستخط نیب کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد، ڈاکٹر ڈبلیو ایف پیپر کے ہیں اور پراسیکیوٹر جنرل فاروق آدم خان اور ایک فارق فواد ملک دو گواہ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کمپنی کا نام براڈ شیٹ ایل این سی انگلینڈ ہے، جس کا کوئی وجود نہیں تھا محض چند دن پہلے بننے والی کمپنی
سے یہ معاہدہ کیا گیا جو مکمل طور پر یک طرفہ معاہدہ ہے۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی وجہ سے ہماری خبر کے مطابق ایک ہزار کروڑ روپے حکومت پاکستان ادا کر چکی ہے اور اس میں سے ایک تہائی رقم موجودہ حکومت نے ادا کیے۔ان کا کہنا تھا کہ یہاں سے پیسے انگلینڈ بھیجے، وہاں سفارت خانے کے اکاؤنٹ پر بھیجے اور نکالنے کی اجازت دی، ای سی سی اورکابینہ کا فیصلہ ہے، اس کا کوئی جواب دینے والا ہے کیوں اور کس مقصد کے لیے پیسے بھیجے گئے۔انہوں نے کہا کہ وہ شخص آج الزام لگاتا ہے کہ اس حکومت کے اہلکار وکیلوں کے ذریعے اور براہ راست رابطے کے ذریعے عدالت نے جو پیسہ ہمیں دیا تھا اس سے حصہ مانگتے تھے، آج وہ لوگ وزرا بھی ہیں اور آئی ایس آئی کے افسروں پر بھی الزام لگا ہے، نہ
صرف نیب ایکسپوز ہوا ہے بلکہ ہمارے حساس ترین اداروں اور کابینہ کے وزرا پر الزام لگ رہا ہے اور ملک کی بے عزتی ہو رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی یہ حقیقت ہے۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ کمیشن بنایا جائے اور وزرا کو کمیشن میں بٹھایا اورکل اس کے اندر اضافہ کیا گیا، ہم عدلیہ کااحترم کرتے ہیں، جج حاضر ہوں یا سابقہ ہوں لیکن جج حضرات کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس عزت کے اہل ہیں یا نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج عظمت سعید کو اس کمیشن کا انچارج لگایا گیا، پاکستان میں کمیشنوں کی تاریخ صحت افزا نہیں ہے، حمودالرحمٰن سے لے کر چینی کمیشن تک سب نے معاملات کے حقائق سامنے رکھنے کے بجائے مجرموں کو چھپانے کی کوشش کی۔ان کا کہنا تھا کہ عظمت سعید وہ شخص ہیں جب یہ معاہدہ ہو رہا تھا تو فاروق آدم پراسیکیوٹرجنرل تھے اور وہ پنجاب میں
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل تھے اور براہ راست اس معاہدے پر دستخط کرنے والے لوگوں کے لیے کام کرتے تھے۔جسٹس (ر) عظمت سعید سے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ اس معاہدے کا حص ہیں اور ان لوگوں کے لیے کام کر رہے تھے جنہوں نے معاہدے کے ذریعے ملک میں اربوں روپے کی کرپشن کی ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلے دن سے طارق فواد ملک کے ذریعے اس کمپنی میں حصے دار تھے آج ان لوگوں کو بچانے کے لیے کمیشن بنایا گیا اور اس میں عظمت سعید کو لگایا گیا جو اس وقت خود اس ادارے کا حصہ تھے۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ کیا ہم توقع کر سکتے ہیں یہ ادارہ حقیقت تک پہنچے گا اور حق کی بات کرسکے گا اور بتا سکے گا پاکستان کے عوام کا ایک ہزار کروڑ روپیہ کس نے ضائع کیا لیکن مجھے کوئی امید نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ میں عظمت سعید صاحب سے گزارش کروں گا کہ آپ سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں، معاشرے میں ایک مقام
ہے اور آپ پر لازم ہے کہ اس کمیشن کے سربراہ نہ بنیں، اس کمیشن کا سربراہ ایک ایسا غیر متنازع آدمی ہو جو اس معاملے کے حقائق عوام تک پہنچا سکے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بات کرپشن کی نہیں ہے بلکہ اس ملک میں منظم طریقے سے سیاست کو تباہ کرنے کی داستان ہے، سیاست دانوں کو بدنام کرنے کی داستان ہے، سیاسی نظام کو ہتک کا نشانہ بنانے کی داستان ہیں، اس میں بہت سے لوگوں کے نام آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ معاہدہ کسی سیاست دان نے کیا ہوتا تو اخبار بھرے پڑے ہوتے کہ ایک ہزار کروڑ فلاں سیاست دان کھا گیا ہے، نیب نے مقدمہ بنایا ہے اور گرفتار کرلیا اورجیل بھیج دیں گے لیکن آج ان لوگوں سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جو حضرات نیب کے چیئرمین بنے ہوئے تھے اور اپنے رشتے داروں کے ذریعے ایسی
کمپنیوں سے معاہدے کر رہے تھے جن کا کوئی وجود نہیں تھا، ان سے کوئی پوچھ سکتا ہے۔نیب پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو ادارہ نام نہاد طور پر کرپشن روکنے آیا تھا خود کرپٹ ثابت ہوا، کیا کرپٹ لوگ کرپشن روکیں گے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ آج عظمت سعید صاحب کا امتحان ہے، آج اس شخص کا امتحان جو پاکستان کی عدالت عالیہ کی کرسی پر بیٹھا رہا، ہمیں جاوید اقبال والا عظمت سعید نہیں چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں وہ جج چاہیئں جو ان کرسیوں پر بیٹھنے کے اہل ہوں، میں عظمت سعید کے بارے میں بہت باتیں کر سکتا ہوں، جو انہوں نے اس کرسی پر بیٹھ کر فیصلے کیے تھے۔جسٹس (ر) عظمت سعید کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آج وہ شوکت خانم ٹرسٹ کے بورڈ پر ہیں کوئی بات نہیں، یہاں تو سلسلہ تو ذاتی دوستوں کو کرسیوں پر لگانے کا ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ فیصلے بھی اس کرسی پر بیٹھ کرکیے گئے وہ شہادت دیتے
ہیں، آج امتحان عظمت سعید کا ہے کہ اس کمیشن کے چیئرمین کی کرسی پر بیٹھ کر متنازع نہ کریں۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آپ اس کمیشن کا حصہ نہ بنیں ورنہ کل آپ کا وہی حال ہوگا جو آج جسٹس (ر) جاوید اقبال کا ہے، آپ کی وہی عزت ہوگی جو جسٹس جاوید اقبال کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جو کرپشن چھپانے، حکومتی معاملات کودبانے کے لیے، حکومت کی نااہلی اور کرپشن کو عوام کی نظر سے دور رکھنے کے لیے آلہ کار بنتا ہے، سیاسی انجینئرنگ اور سیاست بدنام کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس کو پاکستان کے عوام کبھی معاف نہیں کرتے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ آج ضرورت ہے کہ نیب حقائق سامنے رکھے اور نیب کا بھی امتحان ہے، اس کمیشن کی کارروائی عوام کے سامنے رکھا جائے۔مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک غیر متازع آدمی پارلیمان کی اجازت سے اس کمیشن کا چیئرمین لگایا اور اس کی
کارروائی عوام کی جائے۔انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ سے متعلق جو حقائق ہمارے پاس ہیں وہ سامنے لاتے رہیں گے۔مریم اورنگ زیب نے میڈیا سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ میڈیا کو پارلیمنٹ لاجز آنے کی اجازت نہیں دی گئی اور میڈیا کو روک دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ جب میں نے شہزاد اکبر کے خلاف میڈیا سے بات کی تھی اس وقت ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے زبانی حکم آیا تھا کہ اپوزیشن آئندہ پارلیمنٹ لاجز پر میڈیا ٹاک نہیں ہوگی۔انہوں نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ آزادی اظہار کا ہر پلیٹ فارم مفلوج کیا جائے، پارلیمنٹ کے اندر بولنے نہیں دیتے اور پارلیمنٹ لاجز میں میڈیا کو آنے سے منع کیا۔مریم اورنگ زیب نے کہا کہ میں نے ان سے تحریری حکم دکھانے کا کہا تو انہوں نے کہا کہ صرف زبانی حکم آیا ہے کیونکہ براڈ شیٹ کے حقائق عوام کے سامنے آنے سے روکنے کی کوشش کی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں