ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ حکومت چلا سکیں، عمران خان کی حکومت گرا کر ہم کیا کریں گے؟ مولانا فضل الرحمٰن سوچ میں پڑ گئے

اسلام آبا د(پی این آئی) سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن جب پی ڈی ایم اجلاس سے باہر آئے تو ان کی باڈی لینگوئج دیکھنے والی تھی۔مولانا فضل الرحمن سوچ رہے ہوں گے کہ اگر احتجاج کے بعد بھی الیکشن کمیشن کا فیصلہ وہی رہتا ہے تو پھر ہم کہاں کھڑے ہیں۔اس احتجاج کے بعد ہماری پوزیشن کیا ہو گی

کہ ایک بڑی جماعت اس میں شامل نہیں ہے،اس کی لیڈر شپ تو آ گئی لیکن اس کے کارکنان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے،بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم عمران خان کی حکومت گرا لیں گے؟اور اگر حکومت گرا بھی دی تو کیا اس کے بعد ہم حکومت سنبھال سکیں گے تو وہاں پر مولانا کے منہ سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ حکومت چلا سکیں اور جو ان حالات میں حکومت چھوڑ جائے گا وہ ہیرو بن جائے گا۔رانا عظیم نے مزید کہا کہ 2023 تک یہ ٹھک ٹھک ایسے ہی چلتی رہے گی یعنی کہ سیاسی ڈرامے بازی چلتی رہے گی۔نہ تو ن لیگ حکومت سنبھالنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی پیپلز پارٹی۔پیپلز پارٹی کسی صورت نہیں چاہتی کہ یہ حکومت جائے کیونکہ ان کے خیال میں 2023 میں ان کی حکومت آئے گی۔دوسری جانب حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) نے استعفوں کے بعد لانگ مارچ کا فیصلہ بھی موخر کر دیا ہے ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم راہنماؤں نے تجویز دی ہے کہ لانگ مارچ سینیٹ انتخابات کے بعد ہونا چاہئیے . پی ڈی ایم راہنماؤں نے موسم اور سینیٹ انتخابات کے باعث لانگ مارچ موخر کرنے کی تجویز دی فروری میں سردی زیادہ ہوگی کارکنان کیلئے مشکلات ہوگی مارچ میں سینیٹ انتخابات ہیں اسکی تیاری بھی لانگ مارچ کے باعث نہیں ہوسکے گی.

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں