اسلام آباد (پی این آئی) سینئیر صحافی و کالم نگار سلیم صافی کا کہنا ہے کہ این آر او یا نیشنل ری کنسیلیشن آرڈیننس کا نام پاکستانی سیاست و صحافت میں اُس وقت داخل ہوا جب جنرل پرویز مشرف کئی سال تک ہر حربہ استعمال کرنے کے باوجود پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو ختم کرنے میں ناکام رہے اور اُن کو یہ احساس
ہوا کہ صرف قاف لیگ (جو اس وقت کی تحریک انصاف تھی) اور ایم کیو ایم کے سہارے وہ مزید اپنے اقتدار کو دوام نہیں دے سکتے تو انہوں نے اُن جماعتوں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا جنہیں وہ ابتدا میں ختم کرنا چاہتے تھے۔سلیم صافی کا کہنا ہے کہ اب صورتحال یہ ہے کہ این آر او پاکستانی سیاست اور صحافت میں باقاعدہ اصطلاح کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کا سادہ الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ مقتدر اداروں کی طرف سے کسی فرد یا جماعت کی غلط کاریوں اور جرم کو معاف رکھا جائے یا اُن سے صرفِ نظر کیا جائے اور ملزم ہونے کے باوجود ریاستی ادارے اُن کو سیاست میں آگے بڑھنے کا موقع دیں۔انہوں نے کہا کہ اِن دنوں عمران خان صاحب اور اُن کے ترجمان تکرار کے ساتھ این آر او کا ذکر کررہے ہیں اور یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اپوزیشن اُن سے این آر او چاہتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اتنی بے وقوف نہیں کہ وہ اُس شخص سے این آر او مانگیں جن کے پاس اُسے دینے کی صلاحیت ہے نہ اختیار۔ یقیناً پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کی نمبر ون ترجیح یہی ہے لیکن عمران خان کس قانون کے تحت اُن کے کیسز ختم کر سکتے ہیں؟ درحقیقت اِس وقت عمران خان شوکت عزیز اور چوہدری شجاعت کی جگہ بیٹھے ہیں اور اُن دونوں کو نہ صرف این آر او سے شدید تکلیف تھی بلکہ اُس کے نتیجے میں اُن کی چھٹی بھی ہو گئی۔سلیم صافی کا کہنا ہے کہ خود عمران خان کو بھی معلوم ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو این آر او مل جانے کی صورت میں اُن کی چھٹی ہو جائے گی، اس لیے جب کبھی مقتدر اداروں اور اپوزیشن کے رابطے شروع ہو جاتے ہیں تو وہ این آر او، این آر او کا ورد شروع کر دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان میں نئے این آر او کے عمل سے اگر کوئی شخص سب سے زیادہ خوفزدہ ہے تو وہ خود عمران خان ہیں۔تاہم عمران خان کے پروپیگنڈے کی صلاحیت پر ان کو داد دینی چاہئیے کہ وہ پروپیگنڈہ کرکے اپوزیشن کو ایسی دفاعی پوزیشن پر لائے ہیں کہ جیسے وہ ان سے این آر او مانگ رہی ہے حالانکہ خود ان کا اقتدار ان کو ملنے والے مختلف النوع درجنوں این
آر اوز کا مرہون منت ہے۔ پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس سے متعلق سلیم صافی نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق فنڈز خرچ کرنے میں بھی بڑی گڑبڑ ہوئی ہے کیونکہ اکبر ایس بابر جس دور کا ذکر کررہے ہیں، اس دور میں پی ٹی آئی کے کئی رہنمائوں نے بنی گالہ کے ارد گرد جائیدادیں خریدی ہیں اور زیادہ تر وہی تھے جن کا مالیات سے کوئی واسطہ تھا۔میری معلومات کے مطابق حکومت کی طرف سے موجودہ الیکشن کمیشن قائم رکھنے پر بھرپور کام ہورہا ہے اور یہ محنت کی جارہی ہے کہ نئے چیف الیکشن کمشنر، جسٹس سردار رضا اور نئے سیکرٹری بابر یعقوب بنے رہیں تاہم دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن عمران خان کو ملنے والا این آر او برقرار رکھتا ہے یا پھر میرٹ اور قانون کے مطابق جلد فیصلہ کرکے حقیقی معنوں میں الیکشن کمیشن ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں