اسلام آباد (پی این آئی) وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا ہے کہ شریف فیملی کے سیاست سے کمائے اثاثوں کی قیمت 850 ملین ڈالر ہے، اگر 100 ملین ہی سمجھ لیں تو2000ء میں ڈالر کی قیمت 60 روپے تھی، شہباز شریف نے اس وقت 7.34 ملین ڈالر نیب کو دیے جو افتخار چوہدری نے واپس کرا دیے۔
انہوں نے ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ اس بحث کو اگر چھوڑ بھی دیں کہ شریف فیملی کے اثاثوں کی قیمت 850 ملین ڈالر ہے اگر 100 ملین ہی سمجھ لیں تو 2000ء میں ڈالر کی قیمت 60 روپے تھی، شہباز شریف نے 7.34 ملین ڈالر 2000ء میں نیب کو دئیے جو افتخار چوہدری نے واپس کرا دئیے یہ صرف جھلک ہے جو پیسہ شریف فیملی نے سیاست سے کمایا۔ مزید برآں انہوں نے بتایا کہ براڈشیٹ کیس ایسے حقائق پر مبنی ہے جس کے ذریعے سابق حکمرانوں کی بدعنوانی کو سامنے لایا گیا ہے۔شبلی فراز نے الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے احتجاج پرکہا کہ اپوزیشن کا بیانیہ مسترد کرنے پر جڑواں شہروں کے لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔وفاقی وزیر فواد چودھری نے شریف خاندان اور مریم نواز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایک بات ماننی پڑے گی کہ شریف خاندان آرٹسٹ ہے اور جس طریقے سے کرپشن کو انہوں نے باقاعدہ آرٹ کی شکل دی ہے اور ری ماڈل کیا ہے وہ صرف یہ لوگ ہی کر سکتے تھے جس پر یہ داد کے مستحق ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج جس اعتماد کے ساتھ مریم نواز نے ایک ہزار سے 1200 افراد کے مجمع سے لاکھ، ڈیڑھ لاکھ لوگ سمجھ کر خطاب کیا اس سے بھی ان کے اعتماد کا اظہار ہوتا ہے، اسی اعتماد کے ساتھ انہوں نے بتایا تھا کہ میری لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں ہے، کیلبری فونٹ سے جعلی دستاویزات بنوا کر سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ سربراہ جے یو آئی (ف) تنہائی کی اذیت کا شکار ہیں اور انہیں لگ رہا تھا کہ پاکستان کے عوام ان کے ہاتھ پر بیعت کرکے انہیں خلیفہ مقرر کردیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔انہوں نے کہا کہ میں فضل الرحمن سے کہوں گا
کسی اچھے حکیم کے پاس جاکر ذہنی تناؤ میں کمی کی دوا لیں۔ انہوں نے کہا کہ 1999 میں پرویز مشرف نے جب نواز شریف کی حکومت کو برطرف کرکے ملک میں مارشل لاء لگایا تو دو لوگ غضنفر صادق علی اور طارق فواد ملک اس وقت کے چیئرمین نیب جنرل امجد سے ایک کمپنی ٹریوون کے نمائندے بن کر ملے اور 20 فیصد کمیشن کے عوض بیرون ممالک پاکستانیوں کے جائیدایں تلاش کرنے کے معاہدے کی پیشکش کی۔انہوں نے کہا کہ جنرل امجد کو یہ آئیڈیا پسند آیا جس کے بعد انہوں نے اپریل 2000 میں امریکی ریاست کولوراڈو میں کمپنی کا دورہ کیا اور واپس آکر اس وقت کے پراسیکیوٹر جنرل فاروق اعظم علی کو معاہدے کو قانونی شکل دینے کی ہدایت کی، لہٰذا 20 جون 2000 کو نیب اور کمپنی کے درمیان معاہدہ ہوا۔ انہوں نے کہا
کہ ٹریوون نے رشوت سے بنائی گئیں جائیدادیں ڈھونڈنے کیلئے مزید دو کمپنیاں براڈشیٹ اور آئی اے آر قائم کی، فروری 2001 میں شریف خاندان کا پریز مشرف کی حکومت کے ساتھ این آر او طے پاگیا اور یہ لڈیاں ڈالتے ہوئے جہاز میں بیٹھ کر سعودی عرب روانہ ہوگئے، جس پر براڈشیٹ نے نیب کو خط لکھا سے پوچھا کہ ان کی روانگی سے ہمارے پیسے تو کہیں نہیں ڈوب جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت کے چیئرمین نیب خالد مقبول نے کمپنی سے کہا کہ پاکستان کے سیاسی حالات بھی کشیدہ ہیں اس لیے تھوڑا صبر کریں، نیب نے معاہدے کی روشنی میں براڈشیٹ اور آئی اے آر کو 200 لوگوں کی فہرست دی تھی جس میں حیران کن طور پر اسحٰق ڈار کا نام شامل نہیں تھا، کمپنی نے پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں شریف خاندان کی 76 جائیدادوں کی نشاندہی کی، تاہم بعد ازاں 28 اکتوبر 2003 کو نیب نے یہ معاہدہ ختم کرنے کا نوٹس
دے دیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں احتساب کا دائرہ بڑھانے کی ضرورت ہے، عمران خان کی حکومت کا فیصلہ ہے کہ ہم نے چھوڑنے اور مانگنے والوں دونوں کو این آر او نہیں دینا، معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے پر کمپنی نے ہمیں نوٹس دے دیا، ہم نے براڈشیٹ کو 15 ملین ڈالر دے دیے اور فیصلہ بھی ہمارے خلاف ہوگیا۔اس موقع پر وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہا کہ براڈشیٹ اور آئی اے آر کے نتائج کرپشن کی قسط کا حصہ ہے، پہلے پاناما کی خبر آئی اب براڈشیٹ کی خبر آرہی ہے جو 2016 میں آنی چاہیے تھی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں