اسلام آباد(آئی این پی) ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے غربت میں کمی اور سماجی تحفظ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی کی سربراہی میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ہیڈ آفس میں منعقد ہوا۔جس میں سینیٹر ز لیفٹینٹ جرنل (ر) عبدالقیوم (ہلال امتیاز ملٹری)، مرزا محمد آفریدی ، ڈاکٹر آصف کرمانی
، کے علاوہ سیکرٹری بیسپ ، ڈی جی بیسپ و دیگر حکام نے شرکت کی ۔قائمہ کمیٹی نے بیسپ کے کام کے طریقہ کاراور ادارے کے پروگرامز کے حوالے سے بریفنگ کے علاوہ ، ڈیجیٹل سروے روم کا دورہ بھی کیا ۔قائمہ کمیٹی کو سیکرٹری بیسپ یوسف خان اور ڈائریکٹرجنرل خالدصدیق نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ بیسپ کا کام دو اہم ستون پر کھڑا ہے ۔ ایک یہ کہ مستحق لوگوں کی شناخت کرنا جنہیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جا سکے اور اُن کی رجسٹری ہو سکے۔ دوسرا اہم کام لوگوں کو آسانی سے کیش کی فراہمی ممکن بنانا ہے ۔ کیش مشروط اور غیر مشروط طریقے سے دی جاتی ہے ۔ غیر مشروط طریقے میں غریب اور مستحق لوگوں کو کیش دیا جاتا ہے جبکہ مشروط طریقے سے صحت اور تعلیم کے شعبے میں امداد دی جاتی ہے ۔ تعلیم کے شعبے میں پرائمری کے بچوں جن کی 70 فیصد حاضری یقینی ہو لڑکی کو 2 ہزار فی کوارٹراور بچہ1500 دیئے جاتے ہیں ۔ حاملہ عورت کو بھی امداد دی جاتی ہے ۔کمیٹی کو ادارے کی طرف سے مستحقین کی شناخت کیلئے کیے جانے والے سروے کی تفصیلات سے بھی تفصیلی آگاہ کیا گیا ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ لوگوں سے ان کی آمدن کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہیں اور دوسرا ان ڈریکیٹ طریقے سے لوگوںکے اثاثوںکو بنیاد پر مستحق کی شناخت کی جاتی ہے ۔ویلتھ کی پراگسی سے مستحقین کا تعین ہوتا
ہے ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر جہانزیب جمالی دینی نے کہا کہ صوبہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں بے شمار مستحقین موجود ہیں مگر وہ اس سہولت سے مستفید نہیں ہو رہے ۔کس چینل کے ذریعے ان علاقوں تک یہ ادارہ اپنا سروے مکمل کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وڈ ، خضدار اور سردار اختر مینگل کے کچھ علاقوں میں لوگوں سے سی این آئی سی لے کر عملے کے لوگ پیسے وصول کرتے رہے اور اپنی پراپرٹی بھی بنا لی ۔ لوگوںکی شکایت پر سردار اختر مینگل نے معاملہ حل کرایا ہے ۔ کیش ٹرانسفر کے عمل کو مزید شفاف بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ حقداروں کو ان کا حق مل سکے ۔سیکرٹری بیسپ نے کمیٹی کو بتایا کہ کیش ٹرانسفر کے حوالے سے کچھ ایشوز تھے مگر اب موثر حکمت عملی کی وجہ سے کچھ کم ہوئے ہیں ۔ بہتر یہی ہے کہ قائمہ کمیٹی کو کیش ٹرانسفر کے حوالے بریفنگ دی جائے جس میں نئے طریقے بارے تفصیل سے آگاہ کیا جائے گا۔ سینیٹر لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم ہلال امتیار ملٹری نے کہا کہ پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں ہر گھر کا سروے کرانا ممکن نہیں۔ لوکل باڈی الیکشن میں مقامی لوگوں اور ضلعی انتظامیہ سے بھی ریکارڈ حاصل کیا جا سکتا ہے اور زکوۃٰ انچارج بھی مستحق لوگوں کی معلومات فراہم کر سکتے ہیں ۔ سینیٹر ڈاکٹر آصف کرمانی نے کہا کہ پرانے سسٹم میں منی آرڈر کے ذریعے کیشن ڈلیور ہوتا تھا اور ڈاکیا موقع پر
شناخت بھی کرلیتا تھا ۔ نئی ٹیکنالوجی ہر جگہ فائدہ مند نہیں ہو سکتی ۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ بیسپ نے مسلسل 12 سا ل تجربات کیے ہیں ۔2008 میں ہر پارلیمنٹرین سے آٹھ آٹھ ہزار غریب مستحق لوگوں کی درخواستیں لی تھیں ۔ نادرا سے چیک کرانے پر 4 ملین افراد میں سے 2 ملین مستحق نکلے ۔ پاکستان میں 40 فیصد لوگ غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ان کو سپورٹ کر سکے ۔ پاکستان میں 32 ملین گھر ہیں اور بیسپ نے 20 ملین گھروں کا سروے مکمل کر لیا ہے ۔ 20 ملین گھروں کی مکمل تفصیلات بیسپ کے پاس موجود ہیں ان کی نادرا سے تصدیق بھی کرائی ہے ۔ بیسپ کے پاس یہ معلومات بھی ہیں کہ ایک گھر میں کتنے افراد ہیں اور کتنے معذر ہیں ۔ملک کو 8 حصوںمیں تقسیم کر کے معلومات حاصل کی گئیں ہیں اور سروے میں شامل نہ ہونے والوں کو دوبار شامل کرنے کیلئے نادرا ڈیسک سینٹر بنائے گئے ہیں لوگ اپنا اندارج کر سکتے ہیں ۔ 20 ملین گھروں میں سے 12 کروڑ افراد کا ڈیٹا موجود ہے ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ہمارا عملہ صرف معلومات لیتا ہے اور مستحقین کو صرف پراکسی کے ذریعے چیک کیا جاتا ہے ۔ سینیٹر مرزا محمد آفریدی کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ سروے کے تین ماہ کے اندار خط اور میسج کے ذریعے اہل اور نا اہل بارے آگاہ کر دیا جاتا ہے ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر جہانزیب جمال
دینی نے کہا کہ بلوچستان کے کئی علاقوں میں لوگوں کو نادار میں رجسٹریشن کرانے کیلئے کاغذات نہیں ہوتے جس کی وجہ سے وہ سی این آئی سی سے محروم رہ جاتے ہیں یہ معاملہ نادار میں بھی اٹھایا گیا کہ کس طرح سے لوگوںکی مدد کی جاسکے اور ان کیلئے راستہ نکالا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں میٹرینٹی کی سہولیات تک رسائی ، میڈیکل اور بلڈ میچنگ و دیگر صحت کی سہولیات تک رسائی کا ڈیٹا مرتب کیا جائے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ بیسپ کے اس پروگرام کے تحت فاٹا کی تقریبا تمام خواتین نے سی این آئی بنوا لیا ہے ۔ 2007 میں فاٹا کی 8 فیصد خواتین کے پاس سی این آئی سی تھا ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ بیسپ نے اے جے کے کا 13 فیصد ، صوبہ بلوچستان کا 81 فیصد ، جی بی7 فیصد، اسلام آباد28 فیصد ، صوبہ خیبر پختونخواہ 20 فیصد ، صوبہ پنجاب47 اور صوبہ سندھ کا 72 فیصد سروے مکمل کر لیا ہے ۔ قائمہ کمیٹی نے ادارے کے کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اداراہ ملک و قوم کیلئے موثر خدمات سرانجام دے رہا ہے اور بے شمار غریب لوگ اس سے موثر انداز میں مستفید ہو رہے ہیں ۔ اس کے معیار کو مزید بہتر بنانے کیلئے اقدامات اٹھائیں ۔ ادارے کی کا وشیں قابل قدر ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے بیسپ ہیڈ کوارٹر کے ڈیجیٹل سروے روم کا دورہ بھی کیا اور مختلف علاقہ جات کی معلومات حاصل کیں ۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں