لاہور (پی این آئی) نجی ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے سینئیر صحافی نے مسلم لیگ ن سے متعلق اہم انکشافات کر دئے۔ تفصیلات کے مطابق رانا عظیم نے بتایا کہ شہباز شریف کو سائیڈ لائن کر کے مریم نواز کو پارٹی کا صدر بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ شہباز شریف پچھلی مرتبہ جب اپنی پیشی پر آئے تو اُس سے
قبل بھی اُن کی جیل میں اور اُس کے علاوہ بھی کچھ ملاقاتیں ہوئیں۔انہوں نے اس مرتبہ پیشی کے موقع پر اپنی کور کمیٹی کی ٹیم کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ اب آپ متحرک ہو جائیں نہیں تو مسلم لیگ ن کی صدر مریم نواز کو بنایا جا رہا ہے۔ میاں شہباز شریف کو مختلف ذرائع سے یہ خبر ملی ہے کہ انہیں بالکل کارنر کیا جا رہا ہے اور اُنہیں کارنر کیوں کیا جا رہا ہے ؟ جب محمد علی درانی کی ملاقات ہوئی تو اُس سے قبل پے رول پر رہائی کے دوران شہباز شریف نے نیشنل ڈائیلاگ کی بات کی تھی۔ان معاملات پر مریم نواز بھی نالاں تھیں جبکہ نواز شریف کو بھی کہا گیا تھا کہ آپ کے بھائی آپ کے ساتھ نہیں رہے۔ میاں نواز شریف یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں لیکن ان کے قریبی رفقا نے انہیں یہ یقین دہانی کروا دی ہے کہ اگر آپ شہباز شریف کا ساتھ دیں گے تو آپ کا بیانیہ دم توڑ جائے گا اور مسلم لیگ ن جو کہ آپ کی اپنی جماعت ہے ، آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔اُس کے بعد ہوا یہ کہ میاں نواز شریف نے شہباز شریف کو بالکل کارنر کر دیا جائے۔ نواز شریف کی جانب سے یہ پیغام اُنکے قریبی رفقا کو پہنچا دیا گیا ہے جبکہ مریم نواز نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ صرف میں ہی ایک ہوں جس کی وجہ سے ہجوم اکٹھا ہوتا ہے۔ نواز شریف کے بعد لوگ مجھے مسلم لیگ ن کا صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔ رانا عظیم نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی بیرون ملک کسی اور معاملات کے لیے گئے تھے۔ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے، دیکھنا ہو گا کہ کون کس کے ساتھ ہے۔ اگر پارٹی میں ایم این ایز اور ایم پی ایز کی
تعداد دیکھی جائے تو وہ زیادہ شہباز شریف کے ساتھ ہیں، کیونکہ وہ استعفے نہیں چاہتے، وہ اداروں سے ٹکراؤ نہیں چاہئیے، وہ اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام چاہتے ہیں اور اگر کارکنوں کی تعداد دیکھی جائے تو زیادہ کارکنان مریم نواز کے ساتھ ہیں۔ شہباز شریف کی ٹیم آج سے شہباز شریف کے بیانیے کو لے کر ان کی رہائی کے لیے شور ڈالنا شروع کر دے گی ، شنید یہی ہے کہ شہباز شریف جلد باہر آئیں گے۔ اُن کا باہر آنے کا مقصد مسلم لیگ ن کو ہر حال میں اپنے پاس رکھنا ہے۔ ااس حوالے سے اُن کے ساتھی بھی متحرک ہو گئے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں